|
ویب ڈیسک _ امریکہ کی ریاست نیویارک کی گورنر کیتھی ہوکل کی سابق سینئر معاون لینڈا سن پر چین کا 'غیر اعلانیہ ایجنٹ' ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق لینڈا سن گورنر کیتھی ہوکل کی ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھیں۔
فیڈرل پراسیکیوٹر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق لینڈا سن پر غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر اپنا اندراج کرانے میں ناکامی، ویزا فراڈ، انسانی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کی سازش کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
دس برس قبل ریاست نیو یارک کے ایگزیکٹو چیمبر نے لینڈا سن کی خدمات حاصل کی تھیں جب کہ انہیں مارچ 2023 میں اُس وقت عہدے سے برخاست کر دیا گیا تھا جب ان کی غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق معلومات سامنے آئی تھیں۔
اس عرصے کے دوران لینڈا سن متعدد اداروں میں کئی عہدوں پر کام کر چکی تھیں۔
لینڈا سن پر الزام ہے کہ جب وہ ریاست نیو یارک کی حکومت کے لیے خدمات انجام دے رہی تھیں تو اس دوران وہ پیپلز ری پبلک آف چائنہ اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے بھی کام کر رہی تھیں۔
فیڈرل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ لینڈا سن نے کبھی بھی خود کو ایک غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر امریکہ میں رجسٹر نہیں کرایا اور انتہائی مؤثر انداز میں چھپایا کہ وہ چین کی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کے نمائندوں سے احکامات، درخواستیں اور ہدایات لیتی ہیں۔
لینڈا سن اور ان کے شوہر کریس ہو کو منگل کو نیویارک کے لانگ آئی لینڈ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ دونوں افراد پر تقریباً ایک جیسے ہی الزامات عائد ہیں۔
دونوں افراد کو منگل کی دوپہر نیویارک میں بروکلین کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انہوں نے خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی۔
لینڈا سن کے شوہر کریس ہو منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ بینک فراڈ اور شناخت کے غلط استعمال کے الزامات کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔
امریکی اٹارنی بریون پیش کا کہنا ہے کہ جب لینڈا سن گورنر کیتھی ہوکل کے لیے بطور ڈپٹی چیف کام کر رہی تھیں تو وہ اپنے شوہر کے ہمراہ دراصل چین کی حکومت اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے مفادات کو آگے بڑھا رہی تھیں۔
ان کا الزام تھا کہ ان غیر قانونی اقدامات کے سبب لینڈا سن کے خاندان کو کئی لاکھ ڈالر ملے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ لینڈا سن نے تائیوان کی حکومت کے عہدیداروں کو مؤثر انداز میں نیویارک کے ریاستی حکام تک پہنچنے میں روکنے کے لیے کردار ادا کیا۔
لینڈا سن کے بارے میں یہ بھی اطلاع ہے کہ وہ چین اور چینی کمیونسٹ پارٹی سے متعلق اہم معاملات پر ریاست نیویارک کے اعلیٰ حکام کے لیے موصول ہونے والے پیغامات میں رد و بدل میں بھی ملوث تھیں۔
انہوں نے ریاست نیویارک کے سرکاری اعلانات چین کے سرکاری حکام کو پہنچانے کے لیے مبینہ طور پر غیر مجاز انداز سے حاصل کیے۔
لینڈا سن پر عائد دیگر الزامات میں ریاست نیویارک کے اہم ترین سیاست دان کے لیے چین کے دورے کا بندوبست کرنا اور چین کی سرکاری شخصیات کی ریاست نیویارک کے حکام سے ملاقاتوں کا اہتمام کرنا شامل ہے۔
پراسیکیوٹر کے مطابق لینڈا سن اور کریس ہو نے چین کے لیے کام کرتے ہوئے بیجنگ سے بھر پور مالی فوائد حاصل کیے جن میں لاکھوں ڈالر کی ٹرانزکشنز شامل ہیں جو ان کی چین میں کاروباری سرگرمیوں کی آڑ میں کی گئیں۔ اس کے علاوہ انہیں سفری سہولیات دی گئیں جب کہ ان کے قریبی افراد کے کاروبار کو وسعت دینے میں آسانی پیدا کی گئیں۔
ان کے بقول لینڈا سن کے چین میں موجود کزن کے لیے نوکری کا بھی بندوبست کیا گیا۔
پراسیکیوٹر نے یہ بھی بتایا کہ لینڈا سن کے والدین کو ننجیانگ اسٹائل میں پکائی جانے والی بطخیں بھی پیش کی گئی تھیں جو کہ چین کے ایک سرکاری عہدیدار کے ذاتی باورچی نے ان کے لیے تیار کی تھیں۔
ریاست نیو یارک کی انٹرنل ریونیو سروس سے وابستہ مجرمانہ تحقیقات کے انچارج اسپیشل ایجنٹ فاتوروسو کا کہنا تھا کہ لینڈا سن اور ان کے شوہر نے ایک اور ملک کے لیے لاکھوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کی جس سے انہوں نے مالی فوائد بھی اٹھائے اور اس رقم سے نیویارک میں لگژری گاڑیاں اور لاکھوں ڈالر کی پراپرٹی خریدی۔
اس جوڑے نے مبینہ منی لانڈرنگ سے حاصل ہونے والی رقم سے ریاست نیویارک کے لانگ آئی لینڈ میں 41 لاکھ ڈالر کا گھر خریدا جب کہ ریاست ہوائی کے جزیرے ہونولولو میں 21 لاکھ ڈالر کا فلیٹ اپنے نام کیا جب کہ 2024 کی فراری کار سمیت کئی لگژری گاڑیاں بھی خریدیں۔
لینڈا سن نے کبھی بھی چین سے ملنے والی مراعات سرکاری طور پر ظاہر نہیں کیں۔ ریاست نیو یارک کے قانون کے مطابق سرکاری ملازمین کے لیے لازم ہے کہ وہ کسی بھی منفعت کی صورت میں سرکاری طور پر آگاہ کریں گے۔
پراسیکیوٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ کریس ہو نے رشتے داروں کے نام پر بینک اکاؤنٹ کھولے لیکن وہ مکمل طور پر ان کے استعمال میں رہے اور ان کے ذریعے ہی انہوں نے منی لانڈرنگ کی۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ کریس ہو نے اپنے ایک رشتے دار کے ڈرائیور کا لائسنس بھی بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
اس رپورٹ میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے شامل کی گئی ہیں۔