رسائی کے لنکس

کیا اسلام آباد میں جلسہ کرنا مشکل بنایا جا رہا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • اسلام آباد میں جلسہ کرنے سے سات روز قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو تحریری درخواست دینا ہو گا، سینیٹ میں بل پیش
  • حکومت اسلام آباد کے کسی مخصوص علاقے کو ریڈ زون یا ہائی سیکیورٹی زون قرار دے سکتی ہے جہاں جلسے کی ممانعت ہو گی، بل کا متن
  • اگر مجسٹریٹ جلسے کی اجازت نہ دے تو اس فیصلے کے خلاف کمشنر اسلام آباد اور پھر سیکریٹری داخلہ سے رجوع کرنا ہو گا، متن
  • جلسوں کی اجازت سے متعلق بل قانون بنا تو اس کے غلط استعمال کا خدشہ بہرحال موجود ہے، تجزیہ کار
  • اسلام آباد میں آئے روز ہونے والے جلسے جلوسوں کی وجہ سے شہر کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا جاتا ہے جس سے شہریوں کو تکلیف پہنچتی ہے، نصرت جاوید
  • بل پارلیمان سے منظور ہو گیا تو یہ عوام کو متحرک کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے، ایچ آر سی پی
  • اسلام آباد میں جس کا دل کرے کہیں بھی آ کر جلسہ کر دیتا ہے۔ اس لیے جلسے جلوسوں سے لوگوں کی زندگی متاثر نہیں ہونی چاہیے، وفاقی وزیرِ قانون
  • پی ٹی آئی کو جلسوں سے روکا جا رہا ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی اس بل کی مخالفت کرتی ہے، شبلی فراز

پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) میں رواں ہفتے 'پُرامن جلسے اور امن عامہ' کے عنوان سے ایک قانونی بل پیش کیا گیا ہے جس کا مقصد وفاقی دارالحکومت میں جلسے، جلوس سے متعلق اجازت نامہ حاصل کرنے کا طریقہ کار وضع کرنا ہے۔ لیکن ناقدین اس بل کے غلط استعمال کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں جلسوں کی اجازت سے متعلق بل حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے پیر کو ایوان میں پیش کیا تھا۔ لیکن اسے اتحادی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔

سینیٹ میں یہ بل ایسے وقت لایا گیا ہے جب پاکستان تحریکِ انصاف پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وہ مختلف وجوہات کی بنا پر پانچ بار جلسہ ملتوی کر چکی ہے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے ترنول چوک پر آٹھ ستمبر کو ہر حال میں جلسہ ہو گا جس کے لیے وہ پہلے ہی مقامی انتظامیہ سے اجازت نامہ حاصل کر چکی ہے۔

بل میں کیا ہے؟

اسلام آباد میں جلسے سے متعلق پیش کردہ بل کے متن کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں جلسہ کرنے سے سات روز قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو تحریری درخواست دینا ہو گا اور جلسے کی وجوہات اور اس کے دورانیے کا بھی بتانا ہو گا۔

بل کے متن کے مطابق جلسے کی جائز وجوہات نہ دینے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جلسے کی اجازت نہیں دے گا اور اجازت نہ دینے کی تحریری وجوہات بھی دے گا۔

مذکورہ بل میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ جلسے کی اجازت دینے سے قبل امن و امان کی صورتِ حال کا جائزہ لے گا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سیکیورٹی رپورٹ طلب کرے گا۔

سینیٹ میں پیش کردہ بل میں یہ شق بھی شامل ہے کہ حکومت اسلام آباد کے کسی مخصوص علاقے کو ریڈ زون یا ہائی سیکیورٹی زون قرار دے سکتی ہے جہاں جلسے کی ممانعت ہو گی۔

بل کے کے متن کے مطابق اگر مجسٹریٹ جلسے کی اجازت نہ دے تو اس فیصلے کے خلاف کمشنر اسلام آباد کے پاس اپیل کی جا سکے گی۔ اگر کمشنر بھی درخواست مسترد کردے تو اس صورت میں سیکریٹری داخلہ سے رجوع کرنا ہو گا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ مذکورہ بل کے قانون بننے کی صورت میں اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت لینے کے عمل میں ہی ایک سے ڈیڑھ ماہ لگ جائے گا، یہی نہیں جلسے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا معاملہ پھر بھی حکومت کی صوابدید ہی ہو گا۔

ناقدین کے مطابق بل کے تحت جلسے کی اجازت لینے کے لیے تین فورم تخلیق کیے گئے ہیں اور سیاسی جماعتیں ان فورمز سے رجوع کرنے سے قبل عدالت نہیں جا پائیں گی۔

مجسٹریٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی صورت میں تین سال تک قید اور جرمانے کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ تین سال سزا پانے والے شخص کو دوبارہ خلاف ورزی کرنے پر دس سال تک قید کی سزا بھی بل میں تجویز کی گئی ہے۔

تجزیہ کار نصرت جاوید کہتے ہیں اسلام آباد میں آئے روز ہونے والے جلسے جلوسوں کی وجہ سے شہر کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا جاتا ہے جس سے شہریوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ البتہ جلسوں کی اجازت سے متعلق بل قانون بنا تو اس کے غلط استعمال کا خدشہ بہرحال موجود ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بل کی منظوری کے بعد سیاسی جماعتوں کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت لینے میں دشواری ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اس بل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ سینیٹ میں پیش کردہ بل کی منظوری سے ضلعی مجسٹریٹ کو امن و امان کی بنیاد پر عوامی اجتماعات پر پابندی کا اختیار مل جائے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ عوامی اجتماعات کو سخت گیر ضابطے میں لانے کی غرض سے لایا جانے والا مسودۂ قانون دستور کے آرٹیکل 16 کے تحت عوام کے پُر امن اجتماع کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

'جس کا دل کرے اسلام آباد میں آ کر جلسہ کر دیتا ہے'

ایچ آر سی پی نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اگر مذکورہ بل پارلیمان سے منظور ہو گیا تو یہ عوام کو متحرک کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

ایچ آر سی پی نے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف سے اِس مسودہ قانون کو رد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

البتہ وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ مذکورہ بل مناسب ہے جس کے تحت جلسے کی جگہ مختص ہو گی۔

ان کے بقول اسلام آباد میں جس کا دل کرے کہیں بھی آ کر جلسے جلوس کر دیتا ہے۔ اس لیے جلسے جلوسوں سے لوگوں کی زندگی متاثر نہیں ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی رہنما اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ یہ بل بدنیتی پر مبنی ہے اور ان کی جماعت کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو جلسوں سے روکا جا رہا ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی اس بل کی مخالفت کرتی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG