"مسئلے کی کوئی بات ہی نہیں۔ یہ میرا اسسٹنٹ ہے، اس کا نمبر لے لو اور میرا بھی۔ جیسے جیسے زخمیوں کی اور ہلاکتوں کی اپڈیٹ ملتی ہے میرا اسسٹنٹ تمہیں بتادے گا۔ پھر بھی کوئی مسئلہ ہو تو بلا جھجھک میرے پاس آجانا۔"
یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر سیمی جمالی نے میرے کندھے پر تھپکی دی اور اسپتال میں مریضوں کا معائنہ کرنے کے لیے راؤنڈ پر چلی گئیں۔
خوش لباس، دھیما لہجہ، آنکھوں میں کاجل اور میچنگ لپ اسٹک لگائے ایک پر وقار خاتون جنہیں سب ڈاکٹر سیمی جمالی کے نام سے جانتے تھے، ان سے یہ میری پہلی ملاقات اور تعارف تھا۔
فروری 2014 کی صبح رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کے باہر ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں کئی پولیس اہل کار زخمی اور ہلاک ہوئے تھے۔
میں ان دنوں نجی نیوز چینل ‘جیو نیوز’ سے وابستہ تھی۔ صبح آٹھ بجے جب میں آفس پہنچی تو مجھے میرے اسائنمنٹ ڈیسک ایڈیٹر نے کہا کہ دھماکہ ہوا ہے، کرائم رپورٹر اسپاٹ پر ہے۔ تمہیں اسپتال جانا ہوگا کیوں کہ لاشیں اور زخمی جناح اسپتال لائے جارہے ہیں۔
مجھے رپورٹنگ میں یوں تو دو برس ہوچکے تھے لیکن کراچی کے بگڑتے حالات میں کسی اسپتال جاکر یوں رپورٹنگ کرنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔
میں جب اسپتال پہنچی تو افراتفری کا عالم تھا۔ صحت اور جرائم کی خبریں کوور کرنے والے رپورٹرز کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ انہیں کس سے خبر لینی ہے۔ لیکن میں وہاں کھڑی سوچ رہی تھی کہ مجھے کہاں اور کس سے بات کرنی ہے۔
اتنے میں ایک کیمرا مین نے مجھے ساتھ آنے کا کہا اور وہ مجھے سیمی جمالی کے کمرے میں لے گئے۔
انہوں نے میرا تعارف کرایا اور ڈاکٹر سیمی سے کہا کہ سدرہ کو آپ کی مدد درکار ہوگی۔ کسی بھی اسپتال میں ایسی صورتِ حال کی رپورٹنگ کرنے کا یہ اس کا پہلا تجربہ ہے۔ اس لیے میں آپ کے پاس انہیں لے کر آیا ہوں۔
انہوں نے مجھے مسکرا کر دیکھا اور کہا سب کو ہی پہلا قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ مجھے خوشی ہورہی ہے کہ کوئی لڑکی ایسے واقعے کی رپورٹنگ کے لیے موجود ہے۔
اس کے بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ اس وقت تک اسپتال کتنے زخمی لائے جاچکے تھے۔ اپنی کرسی سے اٹھتے وقت انہوں نے میری ہمت بڑھائی اور چلی گئیں۔
میں تمام دن جب تک اسپتال موجود رہی، انہیں کال کرتی یا ان کے پاس جاتی تو وہ انتہائی مصروفیت کے باوجود بہت شفقت سے جواب دیتیں۔
آفس لوٹتے وقت میری نظر میں ڈاکٹر سیمی صنف آہن بھی تھیں اور ناقابل شکست بھی۔
کراچی جیسے شہر کے ایسے اسپتال میں شعبۂ حادثات کی انچارج، وہ بھی کسی عورت کا ہونا معمولی بات نہیں تھی جو اسپتال انتظامیہ، میڈیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں، حکومتی نمائندوں یہاں تک کہ مریضوں کے اہلِ خانہ تک کو جواب دہ تھیں۔
ڈاکٹر سیمی جمالی کی وفات کی خبر صرف میرے لیے ہی افسوس کا باعث نہیں تھی بلکہ ہر اس شخص کو افسردہ کر گئی جو انہیں قریب سے جانتا تھا۔
انہوں نے اپنی زندگی کے 33 برس کراچی کے جناح اسپتال کی خدمت کرنے میں گزارے۔ 19 اگست 2021 کو وہ یہاں سے ریٹائرڈ ہوئیں۔ 2010 میں انہیں جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر بنایا گیا تھا اور پھر 2016 میں وہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔
ڈاکٹر سیمی جمالی 1988 میں جے پی ایم سی میں بطور میڈیکل افسر (ایم او) تعینات ہوئی تھیں۔ 1993 میں ڈاکٹر سیمی نے تھائی لینڈ سے پبلک ہیلتھ مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کی جس کے بعد انہوں نے جناح اسپتال کے شعبۂ حادثات میں خدمات سر انجام دینے کا آغاز کیا۔
جس دور میں ڈاکٹر سیمی جمالی جناح اسپتال کے شعبہ حادثات کی انچارج رہیں یہ کراچی میں خونریزی کا دور تھا۔ دہشت گردی، قتل و غارت، بم دھماکے آئے روز شہر کا امن خراب کیے ہوئے تھے جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا اور ٹی وی اسکرین پر ڈاکٹر سیمی جمالی آتیں، تو ان کا کہا ایک ایک لفظ ہی درست خبر سمجھی جاتی تھی۔
ان کی جناح اسپتال میں ملازمت کے دوران لاتعداد دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کا علاج یہاں کیا گیا۔
نشترپارک دھماکہ، سی آئی ڈی دھماکہ، صفورہ بس دھماکہ، جناح انٹر نیشنل ایئر پورٹ حملہ سمیت بے شمار واقعات میں زخمی اور ہلاک ہونے والوں کو جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں ہی لایا گیا۔
اسی جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں بھی 2010 میں دھماکہ ہوا تھا جہاں پہلے سے زخمی اور تشویش ناک حالت میں موجود مریضوں کو ہنگامی بنیادوں پر دوسرے وارڈز میں شفٹ کیا گیا۔
یہ کوئی عام واقعہ نہیں تھا۔ عام طور پر سرکاری اسپتالوں میں نرسنگ اسٹاف سے عام لوگوں کو خاصی شکایات رہتی ہیں لیکن جب بھی جناح اسپتال کی ایمر جنسی میں داخل ہوں تو یہاں کے نرسنگ اسٹاف سے لے کر صفائی کرنے والے تک کو آپ انتہائی ذمہ دار اور چوکس پائیں گے۔
یہ سب ڈاکٹر سیمی کی بدولت ہی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اسپتال میں موجود نہیں بھی ہیں تو بھی وہ یہی کہیں ہیں۔ یہ بات سب کو اپنی ڈیوٹی ذمہ داری سے سر انجام دینے کی ہمت دیتی تھی۔
یہ جون 2015 کا گرم ترین دن تھا جب کراچی میں کم ہی لوگ ہیٹ ویو کے نام سے اس طرح واقف ہوں گے جیسے وہ اب ہیں۔ میں رپورٹنگ کے لیے جناح اسپتال پہنچی۔ جہاں گرمی سے بے حال مریضوں کا سب سے زیادہ رش تھا اور مرنے والوں کا بھی۔
میں ایمر جنسی وارڈ میں داخل ہوئی تو ایک کیمرا مین اور رپورٹر کو ڈاکٹر سیمی جمالی کی جانب سے ڈانٹ پڑ رہی تھی کہ وہ کیمرا لے کر کیسے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوگئے۔
میں نے انہیں پہلی بار غصے میں دیکھا تھا وہ جب مڑیں تو انہوں نے مجھے پہلے بغور دیکھا اور کہا باہر سے آرہی ہو ناں؟ جاؤ جاکر فورا اپنا بلڈ پریشر چیک کراؤ اور پھر میرے کمرے میں آجاؤ۔
میں نے ان سے کہا کہ میں ٹھیک ہوں۔ تو انہوں نے مجھے زور دیتے ہوئے کہا کہ ٹھیک لگ رہی ہوتی تو بلڈ پریشر چیک کروانے کا نہ کہتی۔
میں تھوڑی دیر بعد ان کے کمرے میں تھی۔ انہوں نے مجھے گرمی میں احتیاط سے رپورٹنگ کرنے کا طریقہ سمجھایا اور پھر کہا دیکھا ایمرجنسی کا حال؟ کتنی افراتفری اور بے بسی ہے۔
میں نے پوچھا کہ اتنا رش پہلے کبھی دیکھا نہیں تو انہوں نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ رش اس لیے ہے کہ جو ہیٹ اسٹروک سے آیا ہے اسے تو علاج ملنا ہی ہے جو ساتھ آیا ہے اسے پنکھے کی ہوا مل رہی ہے وہ کیوں باہر جائے گا۔ گھر میں بجلی نہیں ہے، پانی نہیں ہے تو مریض کا تیماردار وارڈ میں ہی رکنا چاہے گا ناں؟
اسی اثنا میں وہ باہر ایک اطلاع پر نکلیں۔ ایک مخیر شخص کی جانب سے اس خبر پر کہ اسپتال میں بستر کم پڑ گئے ہیں، چارپائیوں سے بھری ایک سوزوکی آئی۔ جسے عملہ اندر آنے سے منع کر رہا تھا۔
ڈاکٹر سیمی نے اس شخص کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا۔ ہم اسے استعمال میں لائیں گے۔ اس شخص نے ڈاکٹر سیمی کے سر پر ہاتھ رکھ کر ڈھیروں دعائیں دی اور کہا کہ تم لوگوں کی جان بچاتی ہو خدا تمہاری زندگی کی ہمیشہ حفاظت کرے۔
وہی ڈاکٹر سیمی جو تھوڑی دیر پہلے غصے میں تھیں۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آنے لگی۔ کچھ لمحے بعد وہ چارپائیاں ڈاکٹر سیمی کے ان احکامات کے ساتھ وارڈ میں پہنچادی گئیں کہ کسی بھی مریض کو داخل کرنے سے نہ روکا جائے سب کو علاج کی سہولت ملنی چاہیے۔
کرونا وبا کے دوران پی آئی اے کا مسافر طیارہ کراچی میں ہوائی اڈے کے قریب گر کر تباہ ہوا۔ تب بھی جناح اسپتال میں ہلاک ہونے والے مسافروں کو منتقل کیا گیا۔
ڈاکٹر سیمی ہر دو گھنٹے بعد میڈیا سے بات کرنے کے لیے ایمرجنسی سے باہر آتیں اور جب بھی کوئی رپورٹر یا کیمرامین بغیر فیس ماسک کے نظر آتا تو اسے ڈانٹ کر ماسک پہننے کی ہدایت کرتیں۔
’’تم اسپتال میں کھڑے ہو اور یہاں سے کرونا لے کر گھر چلے جاؤ گے۔ کیا قصور ہے تمہارے گھر والوں کا جو تمہاری لاپرواہی کی سزا بھگتیں گے؟ اگر اب مجھے کوئی بغیر ماسک کے نظر آیا تو میں کوئی انفارمیشن نہیں دوں گی۔‘‘
وہ ایک معالج کے ساتھ ماں، بڑی بہن اور استاد کا رول نبھانے لگتی تھیں۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک ایوارڈ کی تقریب میں شریک تھیں میں ان کے پاس گئی اور ان سے سلام دعا کے بعد پوچھا کہ اب ریٹارمنٹ کے بعد آپ کا وقت کیسے گزرتا ہے؟ وہ زور سے ہنسیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے بہت اچھی زندگی گزاری ہے۔ بہت لوگوں کی دعائیں پائی ہیں۔ ہاں اسپتال کو وقت دیتے ہوئے خاندان اور خود کو ذرا کم وقت دیا تو آج کل خود کو وقت دے رہی ہوں۔ کتابیں پڑھ رہی ہوں، باہر جاتی ہوں اور دوستوں سے ملاقات کرتی ہوں۔ لیکن اپنے ان مصروف دنوں کو مِس کرتی ہوں۔‘‘
اکسٹھ سالہ ڈاکٹر سیمی جمالی کولون کینسر میں مبتلا تھیں۔ وہ گزشتہ کئی روز سے آغا خان اسپتال میں زیر علاج تھیں۔
دوران ملازمت انہیں اپنی بیماری کا علم ہوا تھا۔ اس کے باوجود وہ ہمت سے اس بیماری کے ساتھ لڑتی رہیں۔
ان کے رفقاء بتاتے ہیں کہ جس روز ان کی کیمو تھراپی ہوتی، وہ اسی روز اسپتال سے غیر حاضر ہوتی تھیں۔ دوران ملازمت بھی وہ طویل تعطیلات پر نہیں جاتی تھیں۔
ان کی اپنے پیشے سے محبت اور جانفشانی کے کام کرنے کے نتیجے میں 2019 میں انھیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا صرف یہی نہیں انہیں اعزازی لیفٹیننٹ کرنل کا بھی خطاب دیا گیا۔
ایک ایسے معاشرے میں جسے مردوں کا معاشرہ کہا جاتا ہے، وہاں ڈاکٹر سیمی جمالی کا صحت کے شعبے میں رہ کر ہر طرح کے چیلنجز اور حالات میں بنا کسی دباؤ کے کام کرنا بہت سی ایسی خواتین کے لیے مثال بنا جو بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن ہمت نہیں کر پاتیں۔