اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار پر لگائے گئے الزامات کا نوٹس لیتے ہوئے اُنہیں منگل کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے سینئر صحافی انصار عباسی، عامر غوری اور اخبار جنگ اور جیو ٹی وی کے مالک میر شکیل الرحمٰن کو بھی عدالت میں طلب کر لیا ہے۔
جسٹس (ر) رانا شمیم نے 10 نومبر کو لندن میں ایک وکیل کے سامنے اپنے بیانِ حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کی ضمانت رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پر اثر انداز ہوئے تھے۔
گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کے بیانِ حلفی کی خبر اخبار 'دی نیوز' کے صحافی انصار عباسی نے پیر کو دی تھی۔
رانا شمیم نے اپنے بیانِ حلفی میں الزام لگایا ہے کہ جسٹس ثاقب نثار اپنی اہلیہ کے ہمراہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل گلگت بلتستان میں چھٹیاں گزارنے آئے تھے اور اس دوران اُنہوں نے اپنے رجسٹرار کو ہدایت دی تھی کہ وہ جج سے رابطہ کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ نواز شریف اور مریم نواز کو انتخابات سے قبل ضمانت پر رہائی نہ ملے۔
جسٹس (ر) رانا شمیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بیانِ حلفی کی تصدیق کی ہے۔
بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے مبینہ طور پر پہلے رجسٹرار اور پھر ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو عام انتخابات کے انعقاد تک جیل میں رہنا چاہیے۔ بیان کے مطابق جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پر سکون ہو گئے اور ایک اور چائے کا کپ طلب کیا۔
'میں زندگی کی آخری اننگز کھیل رہا ہوں، کوئی سیاسی مقصد نہیں'
سابق چیف جج گلگت بلتستان جسٹس رانا محمد شمیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ "میرے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ہیں، میں صرف سچ کو سامنے لے کر آ رہا ہوں۔"
انہوں نے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار گلگت بلتستان میں 27 لوگوں کے ساتھ آئے تھے جن میں ان کے قریبی عزیز اور دو بزنس مین دوست بھی تھے۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق چیف جسٹس ان کے پاس جب آئے تو ایک دن باغ میں بیٹھے ہوئے یہ مبینہ واقعہ ہوا، جب انہوں نے پہلے اپنے رجسٹرار اور بعد میں ایک جج کو فون ملا کر بقول جسٹس شمیم کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو 2018 کے انتخابات سے پہلے باہر نہیں آنا چاہیے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 25 جولائی کو عام انتخابات ہوئے تھے جن میں حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کامیاب ہوئی تھی۔
جسٹس رانا محمد شمیم سے سوال کیا گیا کہ آپ نے جسٹس ثاقب نثار سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ تو جسٹس رانا شمیم نے دعویٰ کیا کہ "بالکل میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں، جس پر ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ آپ بالکل ایسے ہی سمجھیں جیسے آپ نے کچھ سنا ہی نہیں۔"
رانا شمیم نے کہا کہ میری اہلیہ نے وفات سے ایک ماہ قبل مجھ سے کہا تھا کہ آپ کی موجودگی میں یہ زیادتی ہوئی۔ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہ بات ظاہر کر کے اپنے ضمیر پر بوجھ کو ختم کروں۔
جسٹس رانا شمیم نے انکشاف کیا کہ انہوں نے یہ بیان شریف خاندان کو براہِ راست پہنچانے کے لیے بھی کوشش کی اور لندن میں موجود اپنے نواسے کو شریف فیملی تک یہ پیغام پہنچانے کے لیے کہا لیکن وہ وہاں طالب علم ہے اور مصروفیت کے علاوہ اس کی وہاں نواز شریف تک کسی قسم کی رسائی نہیں تھی جس کی وجہ سے یہ پیٖغام ان تک نہ پہنچ سکا۔
جسٹس رانا شمیم نے کہا کہ مجھے بے شک کسی بھی عدالت میں بلا لیں۔ مجھے کوئی لالچ نہیں اور جو بھی سچ ہے وہی کہوں گا۔
'جو بات بند کمرے میں نہیں کر سکتا وہ کھلے عام کیسے کر سکتا ہوں'
جسٹس رانا شمیم کے انکشافات پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ یہ چار پانچ سال پرانی بات ہے، لیکن میں نے کبھی بند کمرے میں ایسی کوئی بات نہیں کی۔ کسی جج کو ایسے فون نہیں کیے۔ میں چیف جسٹس آف پاکستان تھا، میں اتنا بیوقوف تو نہیں تھا کہ میں ایسے فون کسی کے سامنے بیٹھ کر رہا ہوتا۔ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ "میں کسی کا مقصد تو نہیں جان سکتا۔ میں بے وقوف نہیں، کبھی کسی بند کمرے میں بیٹھ کر بات نہیں کی تو میں ان کے سامنے کیسے بات کر سکتا تھا۔"
جسٹس (ر) ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ رانا شمیم کا بیان ان کے بقول، یا تو کسی کو فائدہ دینے کے لیے ہے یا پھر انہیں کوئی عہدہ چاہیے جس کی تیاری ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس رانا شمیم کے حوالے سے بہت سے کیسز ایسے تھے جن پر انہوں نے منفی آبزرویشنز دی تھی۔
سابق چیف جسٹس کے بقول رانا شمیم شاید سمجھتے ہوں کہ میری دی گئی آبزرویشنز کی وجہ سے حکومت نے انہیں ملازمت میں توسیع نہیں دی۔
'عدالت کے ہر جج پر فخر ہے'
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیر کو اس معاملے پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ یوں عدلیہ کا وقار مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اس معاملے پر مختصر سماعت کے بعد چیف جسٹس نے مختصر حکم نامہ جاری کیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اُنہیں اپنے ہر جج پر فخر ہے، لہذٰا اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ زیرِ التوا معاملات پر رپورٹنگ اب روش بن چکی ہے۔ عدالت آزادیٔ اظہار کی قدر کرتی ہے، لیکن اس طرح عدلیہ کا وقار مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی منگل کے لیے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیوں نہ زیرِ التوا کیس پر رپورٹنگ پر مذکورہ صحافیوں کے خلاف توہینِ عدالت کے تحت کارروائی کی جائے؟
مسلم لیگ (ن) کو عدالتی فائدہ تو نہیں البتہ سیاسی فائدہ ضرور ملے گا: سہیل وڑائچ
سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب بھی ماضی میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر کچھ کیا ہے تو وہ ایکسپوز ہو جاتا ہے، وہ بھٹو کا کیس ہو یا کوئی اور اگر اس میں بھی کچھ ملی بھگت ہوئی تو سامنے آ جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ اس معاملے پر کوئی بڑا انقلابی فیصلہ آئے گا۔ البتہ اس سے مسلم لیگ (ن) کو عوامی اور سیاسی طور پر بہت فائدہ ملے گا۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس قسم کی صورتِ حال سے حکومت کا مورال گر سکتا ہے۔ کیوں ایک جانب اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم سیاسی سرگرمیاں تیز کر رہا ہے تو وہیں مہنگائی بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
حکومت کا ردِعمل
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اس سارے معاملے کو بے وقوفانہ کہانی قرار دیا ہے، ایک ٹوئٹ میں ان کہنا تھا کہ ایک صحافی کی حیرت انگیز اسٹوری نظر سے گزری جس میں گلگت کے ایک جج صاحب فرماتے ہیں کہ جب وہ ثاقب نثار صاحب کے پاس چائے پینے بیٹھے تو جج صاحب نے فون پر ہائی کورٹ کے جج کو کہا کہ نواز شریف کی ضمانت انتخابات سے پہلے نہیں لینی۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کیسے کیسے لطیفے اس ملک میں نواز شریف کو مظلوم ثابت کرانے کی مہم چلا رہے ہیں، اندازہ لگائیں کے آپ کسی جج کے پاس چائے پینے جائیں وہ آگے سے فون ملا کر بیٹھا ہے کہ آپ کے سامنے ہی ایسی ہدایات جاری کرے کہ کسی ملزم کی ضمانت لینی ہے یا نہیں لینی۔ ملزم بھی کوئی عام آدمی نہیں ملک کا سابق وزیرِ اعظم ہو۔
خیال رہے کہ احتساب عدالت نے چھ جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، اُن کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو بالترتیب 10، سات اور ایک برس قید کی سزا سنائی تھی۔
نواز شریف اور مریم نواز کو 13 جولائی 2018 کو لندن سے وطن واپسی پر لاہور سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
نواز شریف اور مریم نواز نے سزا کے خلاف ضمانت کے لیے اسلام ہائی کورٹ سے رُجوع کیا تھا۔ تاہم اس کی سماعت عام انتخابات کے بعد رکھی گئی تھی۔