پاکستان میں نیشنل نیوٹریشن سروے کی رپورٹ برائے سال 19-2018 جاری کر دی گئی ہے جس کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں پانچ سال سے کم عمر ہر 10 میں سے چار بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ پیدائش کے پہلے چھ ماہ میں 48.4 فی صد بچوں کو ماں کا دودھ میسر آتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 49 سال عمر تک کی تقریباً 42 فی صد خواتین خون کی معمولی کمی کا شکار ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ سے مل کر غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غذائی قلت تعلیم، صنفی مساوات اور سماجی عدم توازن سے نمٹنے کی کوششوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
اسلام آباد میں ایک تقریب میں معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے نیشنل نیوٹریشن سروے کی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں پانچ سال سے کم عمر 40 فی صد یعنی ہر 10 میں سے چار بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ شہری علاقوں میں 34.8 فی صد بچے اور دیہی علاقوں میں 43.2 فی صد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر 40 فی صد بچوں کا قد عمر کے مطابق کم ہے۔ جب کہ پانچ سال سے کم عمر کے 17.7 فی صد بچوں کا وزن قد کی مناسبت سے کم ہے۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں کم وزن بالغ لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے زیادہ ہے۔ ہر آٹھ میں سے ایک بالغ لڑکی کم وزن ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں 79.6 فی صد گھرانے آئیوڈین نمک استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ 82.7 فی صد ملکی آبادی کو کلورین ملا پینے کا پانی دستیاب ہے۔
سروے رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر 9.5 فی صد بچے موٹاپے کا شکار ہیں۔ جب کہ پانچ سال سے کم عمر 28.9 فی صد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 15 سے 49 سال عمر کی ایک فی صد خواتین شدید اینیمیا یعنی خون میں فولاد کی کمی کا شکار ہیں۔ 49 سال عمر تک کی تقریباً 42 فی صد خواتین خون کی معمولی کمی کا شکار ہیں۔
سروے میں یہ بھی سامنے آیا کہ پانچ سال سے کم عمر 54 فی صد بچے خون، 52 فی صد بچے وٹامن اے، جب کہ 62 فی صد بچے وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔ اسی طرح 27 فی صد مائیں وٹامن اے اور 80 فی صد وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔
'حالیہ سروے ماضی کے مقابلے میں بہت معیاری ہے'
وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ حکومت غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے مؤثر اقدامات کو یقینی بنا رہی ہے۔
ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ حالیہ سروے ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ معیاری ہے۔ اس سروے کا مقصد اس شعبے میں بہتر اصلاحات کرنا ہیں۔
ان کے بقول غذائی قلت کا مسئلہ کچھ اضلاع میں بہت زیادہ ہے۔ اس ضمن میں ایڈوائزری کمیٹی بنی ہے۔ اب آئندہ سی سی آئی اجلاس میں یہ معاملہ لے کر جائیں گے۔ حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اسے 'احساس پروگرام' میں شامل کیا ہے۔
ماں کی خراب صحت اور خون کی کمی بچے کے لیے بھی خطرناک
نیوٹریشنسٹ ڈاکٹر نوشین عباس کہتی ہیں کہ پاکستان کے غذائی چیلنج کی بنیادی وجہ غربت نہیں۔ کیوں کہ امیر ترین گھرانوں میں بھی اہم معدنیات اور غذائیت کی کمی دیکھی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ماں کی صحت اچھی نہیں اور خون کی کمی ہے،تو یہ چیز بچے کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر نوشین عباس نے کہا کہ پاکستان میں بہت سی خواتین میں خون کی کمی ہوتی ہے جس کا اثر بچوں پر بھی پڑتا ہے۔
بچوں میں غذائی قلت کی ایک بڑی وجہ انہوں نے خوراک کے معیار کو قرار دیا اور کہا کہ بہت سی مائیں بچوں کو بازاری کھانے اور جوسز دینے کے بعد سمجھتی ہیں کہ ان بچوں کی خوراک کی ضروریات ،پوری کر دی ہیں۔ لیکن بعد میں بچوں کی کمزور ہڈیوں اور عمر و وزن کے مطابق بچوں کا قد نہیں ہوتا۔
نوشین عباس کے مطابق خوراک کی کمی سے بچیوں کو بھی کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ سروے کے لیے ملک بھر سے ایک لاکھ 15 ہزار گھرانے نیشنل نیوٹریشن سروے کا حصہ تھے۔
سروے میں پہلی بار ضلعی سطح پر اعداد و شمار جمع کیے گئے اور تکنیکی معاونت عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف نے فراہم کی۔
دورانِ سروے عورتوں اور بچوں میں آئیوڈین، وٹامنز کی مقدار چیک کی گئی۔ جب کہ غربت کی شرح، صاف پانی تک عوام کی رسائی کو پرکھا گیا۔