واشنگٹن —
بنگلہ دیش میں جمعے کو ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے شرکا اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں جب کہ پولیس کی فائرنگ اور جھڑپوں میں کم از کم چار افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
جمعے کو ہونے والے مظاہروں کی اپیل 12 دینی جماعتوں کے حال ہی میں بننے والے اتحاد نے کی تھی۔ مظاہرین ان بنگلہ دیشی بلاگرز ے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر رہے تھے جو ان کےبقول اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ مبینہ طور پر اسلام مخالف بلاگ لکھنے والے بنگلہ دیشی بلاگر احمد رجیب حیدر کو گزشتہ ہفتے نامعلوم افراد نے دارالحکومت ڈھاکہ میں ان کی رہائش گاہ کے نزدیک چاقووں کے وار کرکے قتل کردیا تھا۔
رجیب کے قتل کے بعد سے بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں اور سیکولر حلقوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچی ہوئی ہے اور دونوں جانب سے مخالفین کےخلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں۔
احمد رجیب اور ان کے ساتھی کئی دیگر بلاگرز نے گزشتہ کئی ہفتوں سے ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت 'جماعتِ اسلامی' پر پابندی عائد کرنے اور اس کے رہنمائوں کو 1971ء کی جنگِ آزادی میں پاکستان کا ساتھ دینے پر سزائے موت دینے کے مطالبات کے حق میں انٹرنیٹ پر مہم چلا رکھی تھی۔
رجیب کی موت کے بعد سے ان کے حامیوں کی جانب سے 'سوشل میڈیا' پر مقتول اور دیگر بلاگرز کی لکھی ہوئی ایسی تحریروں کا سیلاب آگیا ہے جس میں مخالفین کے بقول اسلام کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
ان انٹرنیٹ پوسٹس کے خلاف بنگلہ دیش میں کئی اسلامی تنظیمیں اور علما احتجاج کر رہے ہیں۔
جمعے کو بھی بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو روکنے پر کئی شہروں میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں اور سرکاری املاک پر حملے کیے جنہیں روکنے کےلیے پولیس نے فائرنگ کی اور آنسو گیس کے کنستر برسائے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق پولیس فائرنگ سے شمال مغربی قصبے پالاشبری میں دو مظاہرین مارے گئے جب کہ مزید دو افراد سلہٹ کے نزدیک پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق مظاہروں کے موقع پر دارالحکومت ڈھاکہ اور ساحلی شہر چٹا گانگ کے کئی علاقے میدانِ جنگ بنے رہے جہاں ہزاروں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس اور طبی حکام نے بتایا ہے کہ جمعے کو ہونے والی جھڑپوں میں ملک بھر میں 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعے کو ہونے والے مظاہروں کی اصل محرک حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت 'جماعتِ اسلامی' تھی جس کے رہنمائوں کو 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دینے اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا ہے۔
جمعے کو ہونے والے مظاہروں کی اپیل 12 دینی جماعتوں کے حال ہی میں بننے والے اتحاد نے کی تھی۔ مظاہرین ان بنگلہ دیشی بلاگرز ے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر رہے تھے جو ان کےبقول اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ مبینہ طور پر اسلام مخالف بلاگ لکھنے والے بنگلہ دیشی بلاگر احمد رجیب حیدر کو گزشتہ ہفتے نامعلوم افراد نے دارالحکومت ڈھاکہ میں ان کی رہائش گاہ کے نزدیک چاقووں کے وار کرکے قتل کردیا تھا۔
رجیب کے قتل کے بعد سے بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں اور سیکولر حلقوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچی ہوئی ہے اور دونوں جانب سے مخالفین کےخلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں۔
احمد رجیب اور ان کے ساتھی کئی دیگر بلاگرز نے گزشتہ کئی ہفتوں سے ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت 'جماعتِ اسلامی' پر پابندی عائد کرنے اور اس کے رہنمائوں کو 1971ء کی جنگِ آزادی میں پاکستان کا ساتھ دینے پر سزائے موت دینے کے مطالبات کے حق میں انٹرنیٹ پر مہم چلا رکھی تھی۔
رجیب کی موت کے بعد سے ان کے حامیوں کی جانب سے 'سوشل میڈیا' پر مقتول اور دیگر بلاگرز کی لکھی ہوئی ایسی تحریروں کا سیلاب آگیا ہے جس میں مخالفین کے بقول اسلام کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
ان انٹرنیٹ پوسٹس کے خلاف بنگلہ دیش میں کئی اسلامی تنظیمیں اور علما احتجاج کر رہے ہیں۔
جمعے کو بھی بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو روکنے پر کئی شہروں میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں اور سرکاری املاک پر حملے کیے جنہیں روکنے کےلیے پولیس نے فائرنگ کی اور آنسو گیس کے کنستر برسائے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق پولیس فائرنگ سے شمال مغربی قصبے پالاشبری میں دو مظاہرین مارے گئے جب کہ مزید دو افراد سلہٹ کے نزدیک پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق مظاہروں کے موقع پر دارالحکومت ڈھاکہ اور ساحلی شہر چٹا گانگ کے کئی علاقے میدانِ جنگ بنے رہے جہاں ہزاروں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس اور طبی حکام نے بتایا ہے کہ جمعے کو ہونے والی جھڑپوں میں ملک بھر میں 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعے کو ہونے والے مظاہروں کی اصل محرک حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت 'جماعتِ اسلامی' تھی جس کے رہنمائوں کو 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دینے اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا ہے۔