فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے پیر کو تین امریکی اور ایک برطانوی شہری کو فرانس کے سب سے اعلیٰ اعزاز ’لیژاں دونور‘ سے نوازا۔
ان افراد نے گزشتہ ہفتے ایک ریل گاڑی پر ایک بندوق بردار شدت پسند کو غیر مسلح کیا تھا۔
اس ایوارڈ کا اعلان اس وقت کیا گیا جب یہ بات سامنے آئی کہ ایک امریکی شہری سپینسر سٹون نے اس دوران ایک مسافر کی جان بھی بچائی۔
مشتبہ شخص کے وکیل نے اتوار کو کہا کہ مراکش سے تعلق رکھنے والا 26 سالہ ایوب الخزانی اس بات پر ’’ہکا بکا‘‘ ہے کہ اسے شدت پسند سمجھا جا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ صرف مسافروں کو لوٹنا چاہتا تھا کیونکہ وہ بھوکا تھا۔
اپنے دو دوستوں کے ہمراہ ایمسٹرڈیم سے پیرس جانے والی ٹرین پر سفر کرنے والے 23 سالہ سٹون نے اتوار کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ کس طرح انہوں نے خود زخمی ہونے کے باوجود ایک اور مسافر کے زخم کو انگلی سے دبا کر اس سے بہنے والے خون کو روکا۔
انہوں نے اپنے دوستوں 23 سالہ اینتھونی سیڈلر اور 22 سالہ الیک سکالاٹوس کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’’میں نے دیکھا کہ اس کی گردن کے دائیں یا بائیں جانب سے خون بہہ رہا ہے۔ میں پہلے اپنی شرٹ استعمال کرنا چاہتا تھا مگر مجھے احساس ہوا کہ وہ کام نہیں کرے گی اس لیے میں نے اس کی گردن پر زخم میں اپنی دو انگلیاں ڈال کر اس کی شریان کو ڈھونڈا اور اسے دبایا جس کے بعد خون بہنا بند ہو گیا۔‘‘ سٹون نے طبی عملے کے آنے تک اسے پکڑے رکھا۔
سٹون کی دائیں آنکھ کے اوپر ایک زخم لگا تھا جبکہ اسے کے رخمی ہاتھ کو محفوظ رکھنے کے لیے دائیں بازو کو گلے میں پٹی ڈال کر سہارا دیا گیا تھا۔
زخمی مسافر اب بھی اسپتال میں ہے۔ فرانس میں امریکہ کی سفیر جین ہارٹلی نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ ’’اس کی حالت اچھی ہے۔‘‘
صدر اولاند نے فرانس میں مقیم 62 سالہ برطانوی شہری کو بھی اعزاز سے نوازا۔
سٹون نے کہا کہ ایک اور شخص جو فرانسیسی تھا اور جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ’’بہت تعریف کا مستحق ہے‘‘ کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے مسلح شخص کو روکنے کی کوشش کی۔
اس حملے میں سٹون کا انگوٹھا ان کے ہاتھ سے تقریباً علیحدہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنا انگوٹھا دوبارہ جوڑنے پر ڈاکٹروں کا شکریہ ادا کیا۔ مشتبہ شخص ایک چاقو، پستول اور کلاشنکوف سے مسلح تھا۔
تینوں امریکی دوست سکارلاٹوس کے افغانستان میں فوجی ڈیوٹی سے واپسی کی خوشی میں یورپ کے دورے پر تھے۔
ان تین دوستوں نے کہا کہ جب انہوں مسلح شخص کو اپنی رائفل کا منہ ان کی طرف کرتے ہوئے دیکھا تو اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اس کو غیر مسلح کریں۔ سٹون نے اس کا گلا دبایا جبکہ سکارلاٹوس نے اس کے سر پر چوٹ لگائی۔
ان کی فوجی تربیت اس وقت کام آئی جب انہوں نے زخمی شخص کو امداد فراہم کی اور مزید مسلح افراد کی تلاش کے لیے ٹرین کی تلاشی لی۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا تھا کہ مشتبہ شخص کو اسلحہ چلانا نہیں آتا تھا ورنہ وہ اسے استعمال کر کے بہت تباہی پھیلا سکتا تھا۔
سکارلاٹوس نے مشتبہ شخص کے اپنے وکیل کے ذریعے دیے گئے بیان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسافروں کو لوٹنے کے لیے آٹھ میگزین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس شخص کے پاس بہت سی گولیاں تھیں۔ اس کے عزائم واضح نظر آ رہے تھے۔‘‘