فرانس کی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ قدامت پسندی کے خلاف ملک بھر میں مراکز قائم کرے گی، جب کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے حوالے سے متعدد نئی تجاویز پر عمل درآمد کے لیے، مجوزہ کام پر چار کروڑ اور 40 لاکھ ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔
فرانس کے وزیر اعظم، منوئل والس نے کہا ہے کہ ’’قدامت پسندی اور بھرتیوں کا معاملہ ہر جگہ پھیلتا نظر آرہا ہے‘‘۔ وزارتی اجلاس کے دوران تجاویز پیش کرتے ہوئے، اُنھوں نے متنبہ کیا کہ ملک کو ایک اور حملے کا سامنا ہوسکتا ہے۔
بقول اُن کے، ’’ہم شدید دہشت گردی کے ایک نئے عہد میں داخل ہوچکے ہیں‘‘۔
ہمسایہ بیلجئم میں اِسی قسم کے اقدامات کا اعلان متوقع ہے جہاں پیر کو سات مبینہ جہادیوں کے خلاف مقدمہ کا آغاز ہوا، جن میں الزام ہے کہ مارچ میں برسلز اور گذشتہ نومبر میں پیرس میں ہونے والے حملوں سے تعلق کا الزام ہے، جن حملوں میں 130 افراد ہلاک ہوئے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اب سے 2018ء تک کے عرصے کے دوران اضافی چار کروڑ 50 لاکھ ڈالر مختص کرے گی، جو نئے ’ایکشن پلان‘ پر خرچ آئیں گے، جس میں 80 اقدامات کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے گا، جن میں سے 50 نئے ہوں گے اِن میں دہشت گردی کے خلاف ملک اور بیرون ملک اقدام کرنے کی کارروائیاں شامل ہیں، جس میں جہادی پروپیگنڈہ کا مقابلہ کرنا اور قبل از وقت قدامت پسندی کی علامات کا پتا لگانا شامل ہے۔
جون اور جولائی میں ’یورو 2016ء فٹبال چمپین شپ‘ اور ’ٹور ڈی فرانس‘ کے انعقاد کے دوران فرانس بھر میں ہنگامی حالات کے نفاذ کے منصوبے پر عمل درآمد ہوگا۔
یہ منصوبہ نومبر میں ہونے والے پیرس حملوں کے بعد شروع کیا گیا۔ ہنگامی صورت حال کے نفاذ کے تحت حکام کو یہ اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر تلاش کا کام کر سکیں اور لوگوں کو گھر پر نظربند کیا جاسکے، جن کے انداز کو ملک کی سکیورٹی اور عوام کے رہن سہن کے لیے خطرے کا باعث خیال کیا جاتا ہو۔
حقوقِ انسانی کے گروپوں نے حکام پر الزام لگایا کیا ہے کہ وہ پولیس کے اختیارات کا غلط استعمال کررہے ہیں، اور درجنوں بے گناہ لوگوں کو نا مناسب طور پر ہدف بنا رہے ہیں، خصوصی طور پر مسلمانوں کو۔
فرانسیسی اہل کاروں کے اندازوں کے مطابق، شام اور عراق میں جہادی نیٹ ورکس سے وابستگی کے شبے میں 2000 سےزائد افراد کو شامل تفتیش کیا گیا ہے، جب کہ اُنھوں نے قدامت پسند کے طور پر 9000 سے زائد مزید افراد کی شناخت کی ہے، جن میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں۔