پاکستان کی حکومت نے قانون سازوں کو بتایا ہے کہ ملک بھر میں مشتبہ اور غیر اندراج شدہ 254 دینی مدارس کو بند کر دیا گیا ہے۔
وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمن نے قومی اسمبلی میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سندھ میں 167، خیبر پختونخواہ میں 13، پنجاب میں دو مشتبہ مدرسوں جب کہ سندھ میں ہی 72 غیر اندراج شدہ مدارس کو بند کیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ مدارس سے متعلق ضوابط کی جانچ کا کام جاری ہے جس کے تحت وفاقی دارالحکومت اور پنجاب میں یہ سو فیصد کیا جا چکا ہے اور دیگر صوبوں میں اس پر کام جاری ہے۔
پاکستان میں انتہا پسندی کو ہوا دینے کے تناظر میں دینی مدارس پر عرصے سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور ان کو قواعد و ضوابط میں لانے کے لیے کی جانے والی متعدد حکومتی کوششیں بھی موثر ثابت نہیں ہو سکی تھیں۔
لیکن دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک سے انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی کے لیے ایک قومی لائحہ عمل وضع کیا گیا جس میں مختلف مسالک کے مدارس کی تنظیموں سے مل کر ان کے اندراج اور اصلاحات پر بھی کام شروع کیا گیا۔
وزیر مملکت کے بقول ملک میں 190 مدارس ایسے ہیں جنہیں دیگر ممالک سے مالی امداد ملتی ہیں۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ مدارس کو ملنے والی بیرونی امداد کو بھی قواعد و ضوابط کے تحت لایا جا رہا ہے۔
ملک بھر میں مدارس کی تعداد تقریباً 18000 ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے اور ان سے وابستہ افراد کا موقف ہے کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کو صرف مدرسوں سے جوڑنا صریحاً غلط ہے۔ حکومتی عہدیدار بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ 90 فیصد سے زائد مدارس کا کسی مشکوک سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے گزشتہ اتوار کو ہی بتایا تھا کہ مدارس کے اندراج جیسے معاملات پر اتفاق رائے ہو گیا اور اس بارے میں اعلان جلد کر دیا جائے گا۔
دینی مدارس کی تنظیم کے ایک اہم رہنما مفتی منیب الرحمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق امور پر حکومت سے اتفاق ہو چکا ہے لیکن ان میں پڑھائے جانے والے نصاب کو حتمی شکل دینے کے لیے تاحال مشاورت کا عمل جاری ہے۔
رواں ماہ ہی بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں چار مدارس کو سربمہر کر دیا گیا تھا جب کہ صوبے کے دیگر علاقوں میں تین درجن کے لگ بھگ مدرسوں کو نگرانی کے عمل میں شامل کیا گیا۔