واشنگٹن —
ہندو مسلم فسادات سے متاثر ہونے والے بھارت کے ضلع مظفر نگر میں بدھ کی رات پیش آنےو الے تشدد کے نئے واقعات کے بعد سکیورٹی انتظامات سخت کردیے گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
خیال رہے کہ بھارت کی ریاست اتر پردیش کے اس ضلع میں گزشتہ ماہ بھی ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے جس میں لگ بھگ 50 افراد مارے گئے تھے۔
اترپردیش کی ریاستی حکومت نے تشدد کے تازہ واقعات کے بعد جمعرات کی صبح نیم فوجی دستوں کے مزید 500 اہلکار متاثرہ علاقے میں تعینات کردیے ہیں۔
ضلع کے ایک مقامی پولیس افسر نے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ تازہ ہلاکتیں شہر مظفر نگر کے مضافاتی دیہات میں پیش آنے والے الگ الگ واقعات میں ہوئی ہیں جن میں ملوث ہونے کے شبہ آٹھ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کی جارہی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔
پولیس افسر کے مطابق ہلاکتیں مختلف دیہات میں گروہوں کےد رمیان تصادم کے نتیجے میں ہوئی ہیں لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا تشدد کے ان واقعات کے پیچھے فرقہ وارانہ کشیدگی کار فرما ہے۔
ہندو مسلم فسادات کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود مظفر نگر کی فضا اب بھی انتہائی کشیدہ ہے اور فسادات کے دوران متاثرہ علاقوں سے جان بچا کر بھاگنے والے سیکڑوں دیہاتی تاحال اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکے ہیں اور خوف کے عالم میں سرکاری کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
فسادات کا آغاز مبینہ طور پر مقامی ہندووں کے ہاتھوں ایک مسلمان نوجوان کے قتل کے بعد ہوا تھا جس کے بعد چاقووں، لاٹھیوں اور سلاخوں سے مسلح گروہوں کے درمیان تین روز تک خون ریز جھڑپیں جاری رہی تھیں۔
فسادات کے دوران میں مسلح جتھوں نے ضلع کے مختلف قصبوں اور ریہات میں کئی گھروں، کاروباری مراکز اور دیگر املاک کو بھی نذرِ آتش کردیا تھا۔
خیال رہے کہ بھارت کی گنجان ترین لیکن غریب ریاست اتر پردیش کا شمار ملک کی مذہبی طور پر انتہائی حساس ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں گزشتہ تین برسوں میں مذہبی فسادات کے دوران میں ملک میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
خیال رہے کہ بھارت کی ریاست اتر پردیش کے اس ضلع میں گزشتہ ماہ بھی ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے جس میں لگ بھگ 50 افراد مارے گئے تھے۔
اترپردیش کی ریاستی حکومت نے تشدد کے تازہ واقعات کے بعد جمعرات کی صبح نیم فوجی دستوں کے مزید 500 اہلکار متاثرہ علاقے میں تعینات کردیے ہیں۔
ضلع کے ایک مقامی پولیس افسر نے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ تازہ ہلاکتیں شہر مظفر نگر کے مضافاتی دیہات میں پیش آنے والے الگ الگ واقعات میں ہوئی ہیں جن میں ملوث ہونے کے شبہ آٹھ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کی جارہی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔
پولیس افسر کے مطابق ہلاکتیں مختلف دیہات میں گروہوں کےد رمیان تصادم کے نتیجے میں ہوئی ہیں لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا تشدد کے ان واقعات کے پیچھے فرقہ وارانہ کشیدگی کار فرما ہے۔
ہندو مسلم فسادات کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود مظفر نگر کی فضا اب بھی انتہائی کشیدہ ہے اور فسادات کے دوران متاثرہ علاقوں سے جان بچا کر بھاگنے والے سیکڑوں دیہاتی تاحال اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکے ہیں اور خوف کے عالم میں سرکاری کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
فسادات کا آغاز مبینہ طور پر مقامی ہندووں کے ہاتھوں ایک مسلمان نوجوان کے قتل کے بعد ہوا تھا جس کے بعد چاقووں، لاٹھیوں اور سلاخوں سے مسلح گروہوں کے درمیان تین روز تک خون ریز جھڑپیں جاری رہی تھیں۔
فسادات کے دوران میں مسلح جتھوں نے ضلع کے مختلف قصبوں اور ریہات میں کئی گھروں، کاروباری مراکز اور دیگر املاک کو بھی نذرِ آتش کردیا تھا۔
خیال رہے کہ بھارت کی گنجان ترین لیکن غریب ریاست اتر پردیش کا شمار ملک کی مذہبی طور پر انتہائی حساس ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں گزشتہ تین برسوں میں مذہبی فسادات کے دوران میں ملک میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی ہیں۔