رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: پاکستان سے امریکی اور افغان فوجیوں کو راکٹس کا سامنا


امریکی اخبارات سے: پاکستان سے امریکی اور افغان فوجیوں کو راکٹس کا سامنا
امریکی اخبارات سے: پاکستان سے امریکی اور افغان فوجیوں کو راکٹس کا سامنا

واشنگٹن پوسٹ کی ایک طویل رپورٹ کے مطابق پچھلے چھ ماہ کے دوران پاکستانی سرحد کے قریب امریکی اور افغان فوجیوں کو پاکستان کی سر زمین سے بڑھتے ہوئے راکٹ فائر کا سامنا رہا ہے۔ اس سے ان کی زندگی زیادہ پر خطر ہو گئی ہے جب کہ امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلّقات میں بگاڑ پر تشویش بڑھ رہی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے راکٹ ایک سرحدی افغان صوبے میں امریکی چوکی پر 55 مرتبہ گرے ہیں۔ اور اخبار نے امریکی فوجی افسروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ خوش قسمتی سے ان راکٹوں سے اب تک کسی امریکی فوجی کو نقصان نہیں پہنچا ہے لیکن 27 جولائی کو 107 ملی میٹر راکٹ سے 18 افغان گارڈ زخمی ہوئے تھے جن میں سے تین بعد میں مر گئے تھے۔ یہ راکٹ پاکستان کی سر زمین سے داغا گیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ پاکستانی عہدہ دار بار بار اس کی تردید کر چکے ہیں کہ وہ طالبان یا حقّانی نیٹ ورک کے لشکریوں کی امداد کر رہے ہیں جو سرحد کی دونوں جانب کاروائی کر رہے ہیں۔ بلکہ و ہ بالاصرار کہتے ہیں کہ وہ سرحد کے آر پارچوری چھپی آمدورفت یا تشدّد کو روکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

تقریباً انہیں خطوط پر ایک طویل مراسلہ نیو یارک ٹائمز میں بھی چھپا ہے۔

اخبار بوسٹن گلوب ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ افریقہ کی ایک بد نصیبی یہ ہے۔ کہ وہاں ایسے شدّاد قسم کے حکمرانوں کی بھر مار ہے۔ جو ہمیشہ کے لئے اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ جس کی ایک جزوی وجہ یہ ہے۔ کہ بہت سے مفلس ملکوں میں اقتدار سے چمٹے رہنا ذاتی دولت بڑھانے کا سب سے یقینی طریقہ ہے۔ لیکن پچھلے ہفتے جب کیپ ورد کے سابق صدر پیڈرو پیریز لکھ پتی بن گئے۔تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ انہوں نے غیر ملکی کمپنیوں سے رشوت لی تھی۔ بلکہ یہ تھی، کہ انہیں مو ابراہیمٕ انعام ملا تھا۔ یہ انعام جمہوری طریقے سےمنتخب ہونے والے ان افریقی لیڈروں کو دیا جاتا ہے۔ جن کا نظام حکومت اچھا ہوتا ہے۔ اور جو پر امن طریقے سے اقتدار سے الگ ہو جاتے ہیں۔ یہ انعام سوڈان کے ایک سرمایہ کار نے قائیم کیا ہے۔ تاکہ افریقی سربراہان مملکت کو ڈکٹیٹر بننے کی تحریص سے بچنے کی ترغیب دی جا سکے۔

اخبار کو افسوس ہے۔ کہ تین سال میں پریز یہ انعام جیتنے والے پہلے شخص ہیں۔ کیونکہ کوئی مناسب امیدوار سامنے نہیں آیا۔ قدرتی وسائیل کی عدم موجودگی کے باوجود کیپ ورد ، پیڈرو پریز کے دور صدارت میں افریقہ کے سب سے خوشحال اور آزاد نلکوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ اور اخبار کو امّید ہے کہ انہیں جو یہ انعام ملا ہے۔ اس سے دوسرے لیڈروں میں یہ ولولہ پیدا ہوگا۔ کہ وہ اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے عوام کے لئے حکومت کریں۔

لاس ویگس سن اخبار کہتا ہے کہ پچھلے کئی ہفتوں کے دوران وال سٹریٹ قبضہ تحریک پھیلتی چلی گئی ہے، جس دوران بعض ناقدین کے اعتراضات کو تعجّب کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ متعدّد پنڈتوں، سیاست دانوں اور دوسرے ایسے لوگوں نے۔ جن کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ناقابل یقین شکایات لگانا شروع کی ہیں۔ ان کے نزدیک ان احتجاجی مظاہرین کی حقیقت ایک ایسے مجمعے کی ہے ۔ جس کا کوئی نصب العین نہیں۔اور جو عادتاًٍٍٍٍ بہت سے ناقدین ٹی پارٹی کے حامی ہیں ۔اور دونوں کے درمیان بھاری فرق کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ٹی پارٹی کے مظاہرین کو راست بازاور با اخلاق محب وطن قرار دیتے ہیں۔ جب کہ وال سٹریٹ قبضے والے مظاہرین کو پاگل شورش پسند سمجھتے ہیں۔ اخبار نے اس بات پر اظہار افسوس کیا ہے۔ کہ بہت سے امریکیوں نے اختلاف رائے کو حقارت کی نظر سے دیکھنا شروع کیا ہے۔اور سیاسی مباحثے کا مطلب یہ ہو گیا ہے۔ کہ کون زیادہ بول کر اور چیخ کر دوسرے کا منہ بند کر سکتا ہے۔

اخبار کہتا ہہے۔ کہ ملک کو سنگین مسائیل کا سامنا ہے۔ اور اس کو صحیح راہ پر لگانے کے لئے ضروری ہے ۔ کہ لوگ ایک دوسرے کی بات سنیں۔ اور بہترین مشوروں کی تلاش کریں ، چاہے وہ مخالف نقطہء نظر رکھنے والوں کی طرف سے ہی کیوں نہ آئے۔

XS
SM
MD
LG