بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کے لیے بھارتی طلبہ نے سوشل میڈیا کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے اور اب اس احتجاج کے لیے انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں انسٹاگرام کی مقبولیت کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انسٹاگرام کی مخصوص سیٹنگز کی وجہ سے اس پلیٹ فارم کے ذریعے شیئر کی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر کے حوالے سے لوگوں کو اس انداز کی آن لائن ہراسیت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر ممکن ہے۔
نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم عبدالرحمان نے نیوز ایجنسی 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ وہ ٹوئٹر پسند نہیں کرتے کیونکہ اس پر انہیں اکثر نفرت پر مبنی ٹوئٹس کا سامنا ہوتا ہے۔
واٹس ایپ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پر ایسا کوئی کنٹرول موجود نہیں ہے جس کے ذریعے یہ دیکھا جائے کہ کون میری تصاویر اور ویڈیوز دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح وہ فیس بک بھی استعمال نہیں کرتے۔
بھارت میں شہریت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاج میں طالب علم پیش پیش ہیں۔ بھارتی پارلیمان سے منظوری کے بعد ملک کے صدر نے اس قانون پر دستخط کر دیے ہیں جس کی رو سے بھارت کے ہمسایہ ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں موجود اقلیتوں کو بھارتی شہریت دی جا سکتی ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے خلاف امتیاز پر مبنی ہے۔
ایسے ہی ایک احتجاجی مظاہرے کے نتیجے میں پولیس نے اتوار کو نئی دہلی میں واقع جامعہ ملیہ یونیورسٹی پر دھاوا بول دیا تھا، جس میں بتایا جاتا ہے کہ کم سے کم 200 افراد زخمی ہوئے۔
یوں اب احتجاج کے لیے موجودہ اور سابق طالب علم انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کا سہارا لے رہے ہیں۔ اسلام مرزا جنہوں نے جامعہ ملیہ سے گزشتہ برس ایم اے کی ڈگری مکمل کی ہے، کہتے ہیں کہ جامعہ کے طالب علم انسٹاگرام کے ذریعے احتجاجی مظاہروں کی کال دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ہدایات دیتے ہیں۔
بہت سے لوگ اس پلیٹ فارم کے ذریعے مذکورہ شہریت کے قانون کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں آگاہی پھیلاتے ہیں۔
بنگلور میں قائم مرکز برائے انٹرنیٹ اور سوسائٹی کے پالیسی افسر ٹورشا سرکار کا کہنا ہے کہ انسٹاگرام کی پرائیویسی سیٹنگز سے ٹرالنگ اور آن لائن ہراسیت کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔
ان کے بقول، فلم، موسیقی اور فیشن سے وابستہ بیشتر مقبول شخصیات بھی انسٹاگرام استعمال کرتی ہیں اور لوگ یہاں اپنے من پسند فلمی ستاروں کی تصاویر دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ یوں، یہ پلیٹ فارم نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔"
تاہم، یہ آن لائن پلیٹ فارم صرف احتجاج کے لیے ہی استعمال نہیں ہو رہے ہیں، بلکہ بھارت میں بہت سے لوگ بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ہندو قوم پرست نظریات کی حمایت کے لیے بھی اسے استعمال کر رہے ہیں۔
چینی کمپنی ’بائیٹ ڈانس‘ کے آن لائن پلیٹ فارم ’ٹک ٹاک‘ کو بھی شہریت کے اس قانون کے خلاف احتجاج کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس پلیٹ فارم کے ذریعے مختصر دورانیے کے ویڈیو خصوصی ساؤنڈ ایفیکٹس کے ساتھ اپ لوڈ کیے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کی گئی ایک ویڈیو میں دو خواتین کو دکھایا گیا ہے جن میں سے ایک سفید کرتے اور نیلی جین میں ملبوس ہے جبکہ دوسری نے برقعہ زیب تن کیا ہوا ہے اور یہ دونوں خواتین جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے باہر سیکڑوں لوگوں کے مجمع کے سامنے شہریت کے قانون کے خلاف نعرے لگا رہی ہیں۔