بھارت کی سپریم کورٹ نے ترمیم شدہ شہریت قانون کے خلاف دائر 59 درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس قانون کے آئینی جواز کا جائزہ لے گی۔ البتہ عدالت نے متنازع قانون پر عمل درآمد روکنے سے متعلق درخواست مسترد کر دی۔
بھارتی سپریم کورٹ میں بدھ کو متنازع شہریت ترمیمی بل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اپنا مؤقف پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
بینچ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ وہ حکومت سے کہیں کہ مذکورہ قانون کی تفصیلات میڈیا میں شائع کی جائیں تاکہ عوام کو اس کے تمام پہلوؤں کا علم ہو سکے۔
مقدمے کی سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی میں تین رکنی بینچ ان درخواستوں پر 22 جنوری کو سماعت کرے گا۔
درخواست دہندگان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر شہریت دیتا ہے، اس لیے یہ غیر آئینی ہے۔
قانون کو چیلنج کرنے والوں میں کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش، اسد الدّین اویسی اور جمعیت علمائے ہند قابلِ ذکر ہیں۔
درخواست دہندگان میں سے ایک سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ تحسین پونہ والا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے گی۔
دوسری جانب اس قانون کے خلاف بھارت میں ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ بدھ کو بھی جاری رہا۔ جامعہ ملیہ میں چھٹے روز بھی مظاہرہ ہوا جس میں یونیورسٹی کے سابق طلبہ و طالبات کے ساتھ مقامی رہائشیوں نے بھی شرکت کی۔
جامعہ کے اساتذہ نے بھی ایک پرامن مارچ کیا اور جامعہ ملیہ کے طلبہ کی حمایت کرنے پر دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ کا شکریہ ادا کیا۔
اساتذہ کی تنظیم جامعہ ٹیچرس ایسوسی ایشن نے کہا کہ جامعہ ملیہ خلافت تحریک کی پیداوار ہے اور عدم تشدد ہمارا نصب العین ہے۔
ادھر بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے ارکانِ پارلیمنٹ نے بھارتی صدر سے ملاقات کی ہے اور مذکورہ قانون واپس لینے اور جامعہ ملیہ کے طلبہ پر تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ ایک روز قبل سونیا گاندھی کی قیادت میں بھی ایک وفد نے بھارتی صدر سے ملاقات کی تھی۔ اس وفد میں اپوزیشن کی 12 جماعتوں کے نمائندگان شامل تھے۔