ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے جوہری معاہدے کی تعمیل کی خلاف ورزی کی جانب ایک اور قدم اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔
ایران نے کئی بار اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ اگر جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک نے امریکی پابندیوں کی وجہ سے تہران کو درپیش معاشی مشکلات سے نہ نکالا تو وہ بھی جوہری معاہدے سے الگ ہو جائے گا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال میں جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی جانب تیسرا قدم اٹھاتے ہوئے اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
جواد ظریف کے بقول ہم کہہ چکے ہیں کہ اگر جوہری معاہدے پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا جاتا تو ہم بھی نامکمل انداز سے اس پر عمل کریں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہمارا مستقبل میں اٹھایا جانے والا ہر قدم معاہدے کے فریم ورک میں رہتے ہوئے ہوگا۔
حالیہ چند روز کے دوران پیش آنے والے واقعات کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
امریکہ نے بدھ کو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف پر یہ کہہ کر پابندیاں عائد کر دی تھیں کہ وہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جن پر پہلے ہی عالمی پابندیاں عائد ہیں۔
امریکی پابندیوں کے تحت جواد ظریف پر امریکہ میں جائیداد اور مفادات رکھنے پر پابندی ہوگی تاہم ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اُن کا امریکہ میں کچھ نہیں اور اُنہیں اس پابندی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ایران نے دھمکی دی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے کی مخصوص حد سے تجاوز کر جائے گا۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدے کی خلاف ورزی سے متعلق ایران کا کوئی بھی اقدام واپس ہو سکتا ہے تاہم اس کے لیے معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک کو اپنے وعدوں پر عمل در آمد کرنا ہوگا۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور حکومت میں امریکہ سمیت عالمی طاقتوں نے 2015 میں ایران سے جوہری معاہدہ کیا تھا تاہم موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال یک طرفہ طور پر معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
امریکہ کے علاوہ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں برطانیہ، روس، فرانس ، چین اور جرمنی بھی شامل ہے۔