افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے اہلکاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ امن معاہدے کے تحت مئی میں انخلا کی ڈیڈ لائن کے بعد بھی نیٹو افواج افغانستان میں رہیں گی۔ اس دعوے کے بعد یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ طالبان غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں۔
ایک نیٹو اہلکار نے نام خفیہ رکھتے ہوئے چند روز قبل 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ اپریل کے آخر تک اتحادی فوجوں کا انخلا مکمل نہیں ہو گا کیوں کہ معاہدے کی شرائط پور ی نہیں ہوئیں۔
اہلکار نے بتایا کہ "امریکہ میں اب ایک نئی انتظامیہ ہے اور پالیسی میں ردو بدل ہو گا جب کہ کسی بھی جلد بازی کے بجائے معروضی حالات کو دیکھ کر ہی فوج کا انخلا ہو گا۔"
امریکہ اور طالبان نے گزشتہ سال 29 فروری کو مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد امن معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔
معاہدے کے تحت امریکہ نے افغان جیلوں میں قید طالبان جنگجوؤں کی رہائی سمیت مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کے مکمل انخلا پر اتفاق کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دوحہ معاہدے کے اثرات نظر نہیں آ رہے ہیں اور حالیہ ایک سال میں تشدد کی کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار شجاع نواز نے بتایا کہ دوحہ معاہدے کے بعد سے اگرچہ امریکی اور اتحادی افواج پر حملے نہیں ہوئے ہیں لیکن افغانستان کے اندر حملے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔
اُن کے بقول اسی لیے بائیڈن انتظامیہ دوحہ معاہدے کو ایک نئی نظر سے دیکھے گی اور شاید اس میں کچھ ترمیم بھی کی جائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس ضمن میں 18 فروری کو برسلز میں نیٹو کی سیکیورٹی میٹنگ میں رُکن ممالک کے وزرائے دفاع آپس میں ملیں گے۔ یہ میٹنگ بہت اہمیت کی حامل ہو گی جس میں شاید افغانستان سے انخلا کو نتائج سے مشروط کیا جائے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور طالبان سے بات چیت کے لیے زلمے خلیل زاد کو اپنا نمائندۂ خصوصی مقرر کیا تھا نئی امریکی انتظامیہ نے بھی انہیں کام جاری رکھنے کا کہا ہے۔
شجاع نواز کے مطابق صدر جو بائیڈن جب نائب صدر تھے تب بھی ان کی یہ کوشش تھی کہ کسی طریقے اس طویل جنگ کو ختم کیا جائے۔ لہذٰا زلمے خلیل زاد کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کا مقصد بھی یہی ہے کہ امن عمل کا تسلسل نہ ٹوٹے۔
اُن کے بقول امریکہ اگر زلمے خلیل زاد کی جگہ کسی اور کو یہ ذمہ داری سونپتا تو کئی معاملات نئے سرے سے شروع کرنے پڑتے اور امن کے حصول میں مزید تاخیر ہوتی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد کو امریکی نیشنل سیکیورٹی مشیر اور وائٹ ہاؤس سے ہدایات ملتی رہیں گی تاکہ مل کر اس سلسلے کو آگے بڑھایا جا سکے۔
مصنف و تجزیہ نگار شجاع نواز کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ معاہدے میں صرف امریکہ اور طالبان شامل تھے جب کہ افغان حکومت اس کا حصہ نہیں تھی۔ اس لیے معاملات صحیح سمت میں آگے نہیں بڑھ رہے۔
اُن کے بقول امن کے حصول کے لیے سب کو مل جل کر کام کرنا ہو گا تاکہ افغانستان میں ایسی انتظامیہ کا قیام عمل میں آئے جس پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔
افغانستان میں آئے روز بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، فائرنگ اور خود کش دھماکوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پیر کو افغان وزیرِ مملکت برائے امن بھی ایک بم دھماکے میں زخمی ہوئے۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ابھی تک طالبان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ معاہدے پر من و عن عمل کر رہے ہیں اور اسی مناسبت سے وہ یہ چاہیں گے کہ مئی تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دوحہ امن معاہدے پر عمل در آمد شروع سے ہی تاخیر کا شکار ہوا۔
اُن کے بقول معاہدے کے تحت 10 مارچ تک قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونا تھا جس میں چھ ماہ لگ گئے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ کون یہ فیصلہ کرے گا کہ کون سا فریق معاہدے کی شرائط پر پورا نہیں اتر رہا کیوں کہ افغان حکومت تو اس معاہدے کا حصہ ہی نہیں تھی۔
اُن کے بقول فریقین ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں جب کہ بظاہر افغان حکومت کافی مطمئن ہے کہ یہ معاہدہ ناکام ہو جائے اور پھر سے بات چیت ہو۔ تاہم رحیم اللہ کے بقول اس کا فائدہ کسی کو نہیں ہو گا۔
افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ اس تناظر میں خون ریزی مزید بڑھے گی۔ لہذٰا تمام فریقوں کو بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے کیوں کہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے۔
خیال رہے کہ افغان حکومت میں شامل کئی اہم رہنما امن معاہدے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ نے اس معاہدے میں طالبان کی کئی شرائط تسلیم کر لی تھیں جس کا نقصان ہوا۔
طالبان اور افغان حکومتی نمائندوں کے درمیان دوحہ میں بین الافغان امن مذاکرات گزشتہ سال ستمبر سے جاری ہیں۔ تاہم ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔
نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے معاہدے پر نظرِ ثانی اور طالبان کے ردِعمل کے بعد تجزیہ کاروں کو تشویش ہے کہ اس سے غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہو رہی ہے جو نہ صرف افغانستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک پر بھی اثرانداز ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کابل میں مقیم سیاسی تجزیہ نگار نصرت اللہ حقپال نے بتایا کہ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال گزشتہ دو دہائیوں کی نسبت سب سے زیادہ خراب ہے۔
ان کے مطابق گزشتہ ادوار میں لڑائی کی سمت معلوم ہوا کرتی تھی اور جہاں لڑائی ہوتی تھی وہاں سے لوگ نقل مکانی کر کے دوسری جگہ چلے جاتے تھے۔
نصرت اللہ کے بقول اب افغانستان کا کوئی بھی کونہ محفوظ نہیں ہے اور پرتشدد واقعات کابل سمیت پورے افغانستان میں ہو رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امن و امان کے ساتھ ساتھ سیاسی صورتِ حال بھی غیر یقینی کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ کسی کو بھی یہ نہیں پتا کے مستقبل میں کیا ہو گا۔ یہی نظام حکومت برقرار رہے گا؟ طالبان ملک کا نظام سنبھالیں گے؟ یا اندھی جنگ مسلسل چلتی رہے گی؟
نصرت اللہ کہتے ہیں کہ عوام موجودہ کابل انتظامیہ سے بھی خوش نہیں ہیں۔ کیوں کہ سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اُن کے بقول لوگوں کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا ہے کہ ان کی بہتری کے لیے کس نوعیت کا نظام ہونا چاہیے۔ کیوں کہ گزشتہ چار دہائیوں سے افغانستان میں صرف خون ریزی کا ہی بازار گرم ہے۔
نصرت اللہ حقپال کا کہنا تھا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے خدشات برقرار رہیں گے۔ ہر طرف مایوسی چھائی ہوئی ہے اور بظاہر افغان حکومت، طالبان، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس اس مسئلے کا حل نہیں نظر آ رہا ہے۔