انگلینڈ کے مایہ ناز آل راؤنڈر بین اسٹوکس کی ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ نے جہاں انگلش شائقین کو حیران کیا وہیں سابق کرکٹرز اور مبصرین بھی اس فیصلے سے دنگ رہ گئے ہیں جس کے بعد ایک بار پھر اس طرز کی کرکٹ کی بقا کا معاملہ زیرِ بحث ہے ۔
انگلینڈ کو 2019 میں ورلڈ کپ جتوانے والے آل راؤنڈر نے گزشتہ ہفتے انٹرنیشنل کرکٹ کی زیادتی کو وجہ بنا کرون ڈے کرکٹ پر ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو ترجیح کا فیصلہ کیا تھا۔
اسی طرح جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک نے گزشتہ سال ٹیسٹ کرکٹ اور اور سری لنکن آل راؤڈر تھیسارا پریرا نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہا تھا۔
کسی کے لئے تینوں فارمیٹ میں بیک وقت ملک کی نمائندگی کرنا مشکل ہورہا تھا تو کوئی نوجوانوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چا رہا تھا۔تاہم ریٹائرڈ کھلاڑی انڈین پریمیئر لیگ ، پاکستان سپر لیگ اور بگ بیش کرکٹ لیگ جیسے مقابلوں میں شرکت کے اہل ہوتے ہیں جہاں کم وقت میں میچز کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔
یہی نہیں، 20 اوورز کی کرکٹ کے بعد اب ٹی ٹین (دس اوورز کی کرکٹ) اور دی ہنڈریڈ (سو گیندوں پر مشتمل اننگزوالی کرکٹ) کی مقبولیت میں اضافے کےبعد امکان ہے کہ مزید کئی کھلاڑی پچاس اوورز کی کرکٹ سے دوری اختیار کرکے ان فارمیٹ کو اپنائیں، جو کھلاڑیوں اور شایقین کے لئے تو فائدہ مند ہوسکتا ہے، کھیل کے لیے نہیں۔
انگلینڈ کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان کے مطابق تینوں فارمیٹ میں بیک وقت ملک کی نمائندگی کرنا ان کے لیے مشکل ہو رہا تھا، مصروف شیڈول کی وجہ سے ان کا جسم ان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا اور انہیں لگ رہا تھا کہ وہ کسی قابل کھلاڑی کی جگہ لے رہے ہیں۔
بین اسٹوکس کی ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ نے جہاں انگلینڈ کو 50 اوورز کی کرکٹ میں ایک ورلڈ کلاس آل راؤنڈر سے محروم کردیا، وہیں کئی سابق اور موجودہ کھلاڑی اس طرز کی کرکٹ کے مستقبل پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔
بعض سابق کرکٹرز کے خیال میں ون ڈے کرکٹ کو ختم کرکے ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ کرکٹ پر توجہ دینی چاہیے جب کہ کچھ کے خیال میں اوورز میں کمی ون ڈے کرکٹ کو دوبارہ مقبول بنانے میں مدد دے گی۔
ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کی تاریخ، تبدیلی نے اس فارمیٹ کو ہمیشہ بچایا
سن 1971 میں حادثاتی طور پر شروع ہونے والے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کے فارمیٹ نے کرکٹ کو ایک ایسے موقع پر جدت بخشی جب دنیا بھر میں فٹ بال اور ٹینس جیسے کھیل مقبول ہورہے تھے۔ اولمپکس میں نہ ہونے کی وجہ سے یہ کھیل صرف ٹیسٹ کرکٹ تک محدود تھا جسے ایک درجن سے بھی کم ممالک کھیلتے تھے۔
ایسے میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان میلبرن میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے جب تین دن بارش کا شکار ہوئے تو منتظمین نے آٹھ آٹھ گیندوں پر مشتمل چالیس چالیس اوورز کا ایک ون ڈے میچ کھیلا جو آگے جاکر اولین ون ڈے انٹرنیشنل بن گیا۔
سن 1972 میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان پہلی ون ڈے انٹرنیشنل سیریز میں اوورز کی تعداد 55 کردی گئی تھی جس میں ایک اوور چھ گیندوں پر مشتمل ہوتا تھا، انگلینڈ میں ورلڈ کپ مقابلوں کے علاوہ 1995 تک جتنے بھی ون ڈے میچز کھیلے گئے، وہ 55 اوورز فی سائیڈ پر مشتمل ہوتے تھے۔
سن 1975، 1979 اور 1983 کے ورلڈ کپ مقابلوں میں دونوں ٹیموں کو ساٹھ ساٹھ اوورز کا سامنا کرنا پڑا، لیکن دیگر ممالک میں کبھی 45، کبھی 40 اور کہیں کہیں تو 35 اوورز تک کے میچز بھی کھیلے گئے جس کی حد آگے جاکر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے 50 اوورز فی اننگز تک محدود کردی۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان اور نیوزی کے درمیان جو پہلا ون ڈے انٹرنیشنل میچ 1973 میں نیوزی لینڈ میں کھیلا گیا ، وہ 40 اوورز تک محدود تھا جب کہ پاکستان نے 1974 میں جو پہلا ون ڈے انٹرنیشنل میچ جیتا، وہ پچاس اوورز کا مقابلہ تھا۔
اسی کی دہائی سے لے کر اب تک کھیلے گئے زیادہ تر مقابلے 50 اوورز کے ہی ہوئے ہیں اور اس فارمیٹ کی وجہ سے کرکٹ دنیا بھر میں مقبول بھی ہوئی۔کرکٹ میں رنگین لباس، پاور پلے اور 'پنچ ہٹنگ' بھی ون ڈے کرکٹ سے ہی شروع ہوئی جس نے اس فارمیٹ کو مزید مقبول بنایا۔
تاہم سن 2005 میں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی آمد نے ون ڈے کرکٹ کی اہمیت کو کم کردیا ہے اور اب ان کے سالانہ میچز کی تعداد بھی دیگر فارمیٹ کے مقابلے میں کم رہتی ہے۔
گزشتہ تین برسوں میں وبا کی وجہ سے کرکٹ تو کم کھیلی گئی لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان ون ڈے کرکٹ کو ہوا، پانچ دن پر مشتمل ٹیسٹ کرکٹ کو اگر دیکھا جائے تو گزشتہ تین برسوں میں 95 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے جو کہ ایک بڑی تعداد ہے۔
اس کے برعکس 2020 میں 43 ون ڈے کے مقابلے میں 94 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل، 2021 میں 70 ون ڈے میچز کے مقابلے میں 332 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اور اب تک 2022 میں 99 ون ڈے انٹرنیشنل کے مقابلے میں 234 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے جاچکے ہیں۔
ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں شائقین کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے اور ایک دن میں متعدد میچز بھی کھیلے جاسکتے ہیں، مبصرین کے خیال میں جب بھی کرکٹ اولمپکس میں کھیلا جائے گا، تو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ہی وہ فارمیٹ ہوگا جسے ایونٹ میں بھیجا جائے گا۔
زیادہ تر سابق کرکٹرز کی رائے میں ون ڈے کرکٹ کا مستقبل تاریک ہے!
ویسے تو بین اسٹوکس کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی کئی سابق کھلاڑیوں نے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں، لیکن انگلینڈ کے ورلڈ کپ وننگ آل راؤنڈر کے فیصلے کو وسیم اکرم نے کرکٹ کی عالمی تنظیم کے لیے ایک لمحہ فکریہ قرار دیا۔
ایک انٹرنیشنل پوڈ کاسٹ میں اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے 1992 کے ورلڈ کپ فائنل کے ہیرو کا کہنا تھا کہ انٹرنیشل کرکٹ میں تین فارمیٹ کا زیادہ دن ساتھ چلنا مشکل ہے، جب ون ڈے کرکٹ میں اسٹیڈیم میں ہی لوگ نہیں آتے تو اسے جاری رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔
سابق پاکستانی کپتان کے مطابق بطور ایک کمنٹیٹر انہیں اب ون ڈے کرکٹ بور کرنے لگی ہے،انہیں کرکٹ کھیلتے ہوئے اتنا محسوس نہیں ہوتا تھا، جتنا کہ اب ہو رہا ہے۔
بقول وسیم اکرم، کرکٹرز کو بھی تین فارمیٹ تھکا دیتے ہیں یا تو ان کے پاس سب سے بڑا فارمیٹ ٹیسٹ کرکٹ ہونا چاہیے یا پھر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ، تاکہ وہ اپنا ذہن بناکر دونوں کھیل سکیں۔
انہوں نے پاکستان، بھارت، سری لنکا ، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان ممالک میں ون ڈے کرکٹ سے اسٹیڈیم نہیں بھرتے۔ صرف انگلینڈ ہی میں اس فارمیٹ کو دیکھنےکے لیے لوگ اسٹیڈیم کا رخ کرتے ہیں، وہ بھی صرف اس لیے کہ انہیں کرکٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔
کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار موجودہ کھلاڑیوں آسٹریلیا کے عثمان خواجہ اور بھارت کے روی چندن ایشون نے بھی کیا تھا، دونوں کے خیال میں ون ڈے کرکٹ اب اپنی طبعی موت کی طرف گامزن ہے۔
ایک انٹرویو میں عثمان خواجہ نے کہا کہ کرکٹ کی بقا کے لیے منتظمین کو ون ڈے انٹرنیشنل کی قربانی دینا پڑے گی، وہ سمجھتے ہیں کہ آج بھی ٹیسٹ کرکٹ سب سے بڑا فارمیٹ ہے جس کے بعد دوسرے نمبر پر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ہے جب کہ ایک روزہ کرکٹ تیسرے نمبر پر آتی ہے۔
دوسری جانب ایشون نے وسیم اکرم کی طرح ایک پوڈکاسٹ میں کہا کہ انہیں اب ون ڈے انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا 'لمبا ورژن' لگتا ہے، اگر اس فارمیٹ نے اپنے آپ کو 'ریلیوینٹ' نہیں رکھا، تو اس کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ اب تو وہ بھی ون ڈے میچز کے دوران کبھی کبھی بوریت کی وجہ سے ٹی وی بند کردیتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ جب سے ون ڈے انٹرنیشنل میں دونوں طرف سے دو گیندوں کے استعمال کا قانون آیا ہے، بالرز کے لیے اس میں کچھ نہیں رہ گیا۔
سابق انگلش کپتان مارک بچر نے بھی ایک پوڈکاسٹ میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ون ڈے کرکٹ کو انگلینڈ میں دوسرے درجے کا مقابلہ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں اس کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔
ون ڈے کرکٹ ابھی زندہ ہے، اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے!
سن 1996 میں ون ڈے کرکٹ کی تیز ترین سینچری اسکور کرنے والے شاہد آفریدی اور 1983 میں بھارت کی جانب سے ورلڈ کپ جیتنے والےآل راؤنڈر اور سابق بھارتی کوچ روی شاستری سمجھتے ہیں کہ ون ڈے کرکٹ میں اوورز کم کرنے اس فارمیٹ میں ایک نئی روح پھونکی جاسکتی ہے۔
ایک ٹی وی چینل کو دئیے گئے انٹرویو میں شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اگر ون ڈے کرکٹ کو چالیس اوورز تک محدود کردیا جائے تو شائقین کی اس میں دلچسپی بڑھے گی۔
بھارتی کھلاڑی روی شاستری بھی شاہد آفریدی کی تجویز کے حق میں ہیں، بھارت اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ون ڈے سیزیز کے دوران کمنٹری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر ساٹھ اوورز کو کم کرکے پچاس اوورز تک محدود کیا جاسکتا ہے، تو اب کیوں نہیں جب لوگوں کو ون ڈے فارمیٹ بور لگنے لگا ہے۔
نامور اسپورٹس جرنلسٹ بین رائٹ سمجھتے ہیں کہ اگر ون ڈے میں 500 وکٹیں لینے والے وسیم اکرم کو یہ فارمیٹ بور لگ رہا ہے تو منتظمین کو اس حوالے سے سوچنا چاہیے۔
بھارتی صحافی وکرانت گپتا نے بھی سوشل میڈیا پر ون ڈے کرکٹ کے مستقبل پر سوال اٹھادیا ۔
سابق پاکستانی کپتان سلمان بٹ ان مبصرین کے خیالات سے متفق نہیں، ان کے خیال میں ون ڈے کرکٹ آج بھی ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی کا امتزاج ہونے کی وجہ سے مقبول ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔