حکومتی اتحاد نے پنجاب اسبملی کے اسپیکر کی رولنگ سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کی مشترکہ درخواستوں کے مسترد کیے جانے کے فیصلے کے ردعمل میں مقدمے کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔
اسلام آباد میں اتحادیوں کے اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، نواز لیگ کے سنیئر راہنما اور وفاقی وزیر احسن اقبال، وزیرخارجہ اور پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین بلاول بھٹو زرداری اور حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کے نمائندوں نے کہا کہ سپریم کورٹ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ پر فل کورٹ نہ بنانے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے ، ہم اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جن تین جج صاحبان نے فیصلے دیے، ان کے ماضی کے فیصلوں کی وجہ سے ان کے ذہنی میلان کا اندازہ تھا۔
اسلام آباد سے عاصم علی رانا کی رپورٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بنچ کا فیصلہ سیاسی تصور ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اتحادیوں نے عدلیہ کا وقار بحال رکھنے اور تکریم کے لیے فل کورٹ کی استدعا کی تھی۔ لیکن ان کے بقول بدقسمتی سے عدالت نے ان کی استدعا مسترد کر دی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اس موقع پر اعلان کیا کہ اتحادی اس کیس میں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوں گے اور بائیکاٹ کریں گے۔ اس سے قبل وزیرداخلہ اور نواز لیگ کے راہنما رانا ثناٴاللہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ فل کورٹ نہ بننے کی صورت میں مقدمے کا بائیکاٹ کریں گے۔
مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے بھی ایک بیان میں کہا کہ اگر ججز کے پینل سے کسی کو بھی وقت سے پہلے فیصلوں کا اندازہ ہو جائے تو یہ بات انصاف کے معیار کے منافی ہے۔
پیپلزپارٹی کے شریک چئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی فل کورٹ نہ بنانے کے سپریم کورٹ بنچ کے فیصلے کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بار ہا کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں پر عدالت فیصلے دے رہی ہے لہذا فل کورٹ میں ہماری بات سنی جانی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ہمارا مطالبہ نہیں مانا جارہا اس لیے حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتیں دپٹی سپیکر رولنگ کیس میں اس بینچ کا بائیکاٹ کریں گی۔
قبل ازیں، سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے کے کی مشترکہ درخواستیں مسترد کر دی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دلائل سننے کے بعد اپنے فیصلے میں اتحادی جماعتوں کی طرف سے فل کورٹ بٹھانے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بارے میں فیصلہ منگل کو گیا جائے گا۔
عدالت نے قبل ازیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے کیس میں فریق بننے کی درخواستیں بھی منظور کی تھیں۔
مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے عدالت کے فیصلے پر اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ" انہیں پہلے ہی یقین تھا کہ فل کورٹ نہیں بنے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب فیصلے آئین،قانون اور انصاف کے مطابق نہ ہوں تو فُل کورٹ سے خطرہ رہتا ہے"
فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے پیر کا پورا دن حکومتی اتحاد کو دیا کہ وہ اس بارے میں دلائل دیں کہ فل کورٹ کی تشکیل کیوں ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کی طرف سے فیصلہ آنے کے بعد اب امید ہے کہ منگل کو ڈپٹی اسپیکر رولنگ کے بارے میں عدالت کا حتمی فیصلہ آ جائے گا۔
عدالتی کاروائی میں کیا دلائل دیے گئے
عدالت کا کہنا تھا کہ کیس کو میرٹ پر سنیں گے اور میرٹ پر دلائل کون دے گا؟ جس پر ڈپٹی اسپکر دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ان کے دلائل ہی فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق تھے لیکن انہیں موکل سے ہدایات لینے کے لیے وقت دیا جائے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ شاید چاہتے ہیں کہ آپ کے کہنے پر فل کورٹ بنا دیں تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں۔
وکیل عرفان قادر نے وضاحت کی کہ مرضی کے ججز کی کوئی بات نہیں کر رہا۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ کی ساکھ پر کوئی شک ہے لیکن عوامی دباؤ ہے کہ مخصوص ججز ہی ایسے کیسز کیوں سنتے ہیں، اگر تعصب کا شک بھی پڑے تو جج اس بینچ سے الگ ہوجاتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عرفان قادر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں بہت سنجیدہ اور پیچیدہ مسئلہ ہو تو فل کورٹ بنایا جاتا ہے، یہ کوئی بہت زیادہ پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے۔
عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر 17 مئی کا فیصلہ موجودہ انتخاب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دوبارہ انتخاب کی ضرورت نہیں کیوں کہ ووٹ شمار ہوں گے۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ آپ کے فیصلے کے مطابق ہے یا نہیں۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت کے پچھلے فیصلے اور گزشتہ سماعت پر دیے گئے آرڈر میں تضاد ہے، میرا کیس ریویو میں ہے اس لیے اس کیس کو جلدی میں نہیں سنا جاسکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت اس معاملے کو میرٹ پر مزید سننا چاہتی ہے، بعد میں دیکھیں گے کہ یہ معاملہ فل کورٹ کا ہے بھی یا نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس میں سوال بس یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹی کی طرف سے کوئی ہدایات نہیں تھیں، پارٹی سربراہ کی تھی، یہ کوئی بہت مشکل کیس نہیں ہے۔ عدالت کو فل کورٹ بنانے کے لیے آئینی نکات درکار ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم میں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنا کر احسن قدم اٹھایا گیا برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن کو پارلیمانی پارٹی نے ووٹ دیا اور عدم اعتماد تک بات ہی نہیں گئی۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 69 کہتا ہے کہ پارلیمان کے مسئلے عدالت میں نہیں آنے چاہیے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ غیر قانونی اقدام کرے گی توعدالت مداخلت کرے گی۔
'اگر پارلیمنٹ غیر قانونی کام کرے گی تو عدالت مداخلت کرے گی'
یپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے دلائل کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ کو دیکھنا چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کی اندرونی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت نے تعین کرنا ہے وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب درست تھا یا نہیں؟ سوال بس اتنا ہے کہ اگر ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کو غلط سمجھا ہے تو ہم اس کو درست کریں۔ کیسز کا پنڈورا باکس نہیں کھول سکتے۔
ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے شکوہ کیا کہ ایک جماعت نے آئین کے ساتھ فراڈ کیا لیکن اس کو جلد انصاف مل رہا ہے۔ آئین کو توڑنے والوں کے لیے جلد بازی نہ کی جائے جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ چھٹیوں کے باوجود ہمارے ججز زیرِ التوا مقدمات کی تعداد کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
عدالتی ریمارکس پر وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے اس لیے مشاورت کے بعد ہی فیصلہ کریں گے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان سے استفسار کیا کہ فیصلے کے کون سے حصے پر ڈپٹی اسپیکر نے انحصار کیا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ فیصلے کے پیرا گراف تین پر ڈپٹی اسپیکر نے انحصار کیا جو آرٹیکل 63 اے میں 14 ویں ترمیم سے آئین میں شامل کیا گیا۔
حمزہ شہباز کے وکیل نے مزید کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارٹی سربراہ کا ذکر موجود ہے اور جسٹس شیخ عظمت سعید کے ماضی میں دیے گئے ایک فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلے کرتا ہے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں۔ 18 ویں ترمیم سے پہلے آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایت کی بات کرتا ہے جب کہ 18 ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا، ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں 22 جولائی کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا۔ اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی تھی کہ مسلم لیگ ق کے 10 ووٹ کالعدم ہونے کے بعد حمزہ شہباز صوبے کے وزیرِ اعلیٰ رہیں گے۔
حمزہ شہباز کے حق میں 179 اور تحریکِ انصاف کے امیدوار چوہدری پرویز الہیٰ کو 176 ووٹ پڑے تھے۔ تاہم ڈپٹی اسپیکر نے کہا تھا کہ مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے انہیں ایک خط لکھا ہے جس کے مطابق ان کی جماعت کے ارکان کے ووٹ حمزہ شہباز کے لیے ہیں اس لیے پی ٹی آئی کے امیدوار کو پڑنے والے ق لیگ کے 10 ووٹ کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف پیر کو سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سربراہ کا کردار بہت اہم ہے لیکن عوام جسے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتے ہیں ان ارکان کے پاس ہی مینڈیٹ ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے آبزرویشن دی کہ ووٹ کس کو ڈالنا ہے یہ ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی اور کسی رکن کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ پارٹی سربراہ کرتا ہے۔ اس لیے سیاسی جماعت اصل میں وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہو۔
سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی کہ سیاسی جماعت اصل میں پارلیمانی پارٹی ہی ہوتی ہے، عوام جنہیں منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتے ہیں انہی کے پاس مینڈیٹ ہوتا ہے۔
اس موقع پر حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت چار سیاسی جماعتوں کے سربراہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔ عوام میں جواب دہ پارٹی سربراہ ہوتا ہے پارلیمانی پارٹی نہیں۔
معاملے میں کوئی ابہام نہیں'
کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے عدالت سے استدعا کی کہ معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کن نکات پر فل کورٹ سماعت کرے؟
عرفان قادر نے دلائل کے دوران کہا کہ میرے ذہن میں کافی ابہام ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ابہام نہیں ہے۔
عدالت نے عرفان قادر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت کی بات پہلے سنیں، اگر آپ نے ہماری بات نہیں سننی تو کرسی پر بیٹھ جائیں۔ اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے کہا کہ آپ چیف جسٹس ہیں اور ڈانٹ پلا سکتے ہیں لیکن آئین میں انسان کے وقار کا بھی ذکر ہے جس پر بینچ میں شامل رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میں تو آپ کو محترم کہہ کر پکار رہا ہوں۔
عرفان قادر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت تسلی رکھے ہم صرف یہاں معاونت کے لیے آئے ہیں لڑائی کے لیے نہیں۔
حکومتی اتحاد کا فل کورٹ بنانے کا مطالبہ
ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت سے قبل حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران عدالت سے فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے خلاف سپری کورٹ میں آنے والے کیسز میں ایک ہی جج ہر بینچ میں شامل ہوتے ہیں جنہیں ماضی میں پاناما کیس کے دوران نگران جج لگایا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ انصاف کا نظام ہے کہ جب پٹیشن آتی ہے تو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سا بینچ بنے گا اور کیا فیصلہ آنا ہے۔ جس طرح میچ فکسنگ ایک جرم ہے اس طرح بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے بینچ سے ہمیں انصاف کی کوئی توقع نظر نہیں آ رہی جب کہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اگر صرف تین جج بیٹھ کر فیصلہ سنائیں گے تو پھر جو اس ملک میں ہو گا اسے ہم نہیں سنبھال سکیں گے۔