پاکستان میں اتوار کو ہوانے والے پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی واضح کامیابی کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی مستقبل کی حکمت عملی سیاست کے ایوانوں میں اہم موضوع بن چکی ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے بعد اسے عوامی فیصلہ قرار دیا ہے اور مستقبل میں عوامی رابطے بڑھانے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ پارٹی ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا انتخابی نتائج کے بعد کہنا ہے کہ پنجاب کے عوام نے ہمیشہ مسلم لیگ ن پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے اور گذشتہ روز جن 16 صوبائی نشستوں پر شکست ہوئی ہے وہاں مزید کام کریں گے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ شفاف، غیرجانب دارانہ انتخابات اور جمہوری اقتدار کی پاسداری میں پاکستان مسلم لیگ (ن) پختہ یقین رکھتی ہے اور گزشتہ روز کا انتخاب اس کا عملی مظاہرہ ہے۔
پنجاب میؓں صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے غیرحتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف نے 15 نشستیں جیتی ہیں جب کہ چار حلقوں سے پاکستان مسلم لیگ ن اور ایک نشست پر آزاد امیدوار کو کامیابی ملی ہے۔
مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے البتہ اتوار کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد پنجاب کی اسمبلی میں تحریک انصاف کو حاصل ہونے والی عددی اکثریت کے بعد صوبے میں مسلم لیگ ن کی حکومت برقرار نہیں رہ پائے گی۔
ن لیگ سیاسی طور پر کہاں کھڑی ہے؟
پنجاب کو سیاسی اعتبار سے مسلم لیگ ن کا سب سے مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد صوبے اور ملکی سطح پر اس کی مستقبل کی حکمت عملی کا سوال مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے۔
رواں برس اپریل میں تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ختم کر کے مسلم لیگ ن نے حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت تشکیل دی تھی۔ اس کے بعد کئی ہفتوں جاری رہنے والی ہنگامہ خیزی اور سیاسی داؤ پیچ کے بعد پنجاب میں حمزہ شہباز شریف کی حکومت قائم ہوئی تھی۔
اب سوال اٹھایا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن کا عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے بعد حکومت بنانے کا فیصلہ سیاسی اعتبار سے اس کے لیے نفع کا سودا ثابت ہوا یا نقصان کا؟ اس پر تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن نے صورتِ حال کا غلط اندازہ لگایا اور اس کے نتیجے میں انہیں سیاسی طور پر خاصہ نقصان ہوا ہے جو کہ ان کے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے خلاف تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد لانی بھی ہے تو اس کی کامیابی کے بعد فوری عام انتخابات کرائے جائیں۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن میں ایک خیال یہ بھی تھا کہ اگر عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے نہ ہٹایا گیا تو اس کے نتیجے میں زیادہ نقصان اٹھانا پڑ سکتا تھا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد کے بعد صورت حال مسلم لیگ ن کے خلاف ہوگئی اور گذشتہ تین برسوں میں حزب اختلاف میں رہتے ہوئے جماعت نے جو ساکھ بنائی تھی نہ صرف اسے ٹھیس پہنچی بلکہ حکومت میں آکر انہوں نے مہنگائی اور بدانتظامی کا اضافی بوجھ بھی اپنے کاندھوں پرلےلیا۔
خیال رہے کہ اپریل 2022 سے قبل صوبےاور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران پنجاب میں ہونے والی ضمنی انتخابات میں بیشتر نشستوں پر مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی تھی۔
ن لیگ کو فیصلوں کا بوجھ اٹھانا ہوگا!
سیاسی تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر پنجاب کے ضمنی انتخابات تک مسلم لیگ ن کو کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ اسے الٹا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کو اس صورتِ حال سے نکالنے کے لیے پارٹی قیادت کو سوچ و بچار کرنا ہوگی۔ نواز شریف کا یہ بیان کہ مشکل فیصلے کرنے سے انہیں نقصان ہوا ہے، اس لیے بھی قابل قبول نہیں ہے کہ وہ ایک تجربہ کار سیاسی قائد ہیں۔ انہیں صورتِ حال کا ادراک ہونا چاہیے تھا اور ان کے فیصلے بھی اس کے مطابق ہونے چاہیے تھے۔
سلیم بخاری کے مطابق مہنگائی کی صورتِ حال غیر متوقع نہیں تھی اور مسلم لیگ ن کی قیادت اس کی ذمے داری سے مبرا نہیں ہوسکتی ہے بلکہ انہیں اپنےفیصلوں کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس تحریکِ انصاف نے اسٹیبلیشمنٹ اور امریکہ مخالف بیانیے کی بنیاد پر اپنی ساکھ بہتر کی اور پنجاب کے ضمنی انتخابات کی بازی پلٹ کر رکھ دی۔
ن لیگ کے پاس آپشن کیا ہیں؟
ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کو مرکز اور پنجاب میں اب بظاہر مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔ تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ بدلتے حالات میں مسلم لیگ ن کے پاس محدود راستے ہیں اور عام انتخابات کی طرف نہ جانے سے انہیں مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پنجاب میں کامیابی کے بعد عمران خان کی جانب سے وفاقی حکومت کے فوری خاتمے اور نئے انتخابات کے اعلان کا مطالبہ مزید زور پکڑے گا۔ لیکن کم از کم وزیراعظم شہباز شریف یہی چاہیں گے کہ آئندہ چند مہینوں میں اہم تقرریوں کا فیصلہ کرنے کے بعد ہی عام انتخابات کا اعلان کیا جائے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان عام انتخابات کا مطالبے پر پوری طرح ڈٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گذشتہ رات پی ٹی آئی کی برتری واضح ہونے پراپنے ایک ٹوئٹ میں عمران خان نے کہا تھا کہ ملک کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ فوری طور پر صاف اور شفات الیکشن ہے، جو کہ غیر متنازع الیکشن کمیشن کرائے۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ سیاسی بے یقینی اور مزید معاشی افراتفری کا باعث بنے گا۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان کے مطالبے پر یا اپنی کمزوری کے سبب حکومت کے لیے عام انتخابات کی طرف جانے کا راستہ ہی بہتر دکھائی دیتا ہے اور اس میں تاخیر حکومت کے لیے کئی نئی مشکلات بھی کھڑی کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب پنجاب میں بھی ن لیگ کی حکومت نہیں رہے گی تو انتخابات میں نہ جانے کی صورت میں حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا جسے وہ برداشت نہیں کرسکیں گے۔
سلیم بخاری کے مطابق مسلم لیگ ن کو اب اپنی سیاسی ساکھ بہتر بنانے کے لیے فیصلے کرنا ہوں گے۔اس کے لیے چاہے انہیں حکومت سے باہر ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔
خیال رہے کہ پنجاب کے الیکشن سے قبل حکومتی اتحاد عمران خان کے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی۔
اس بارے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ صورتِ حال اس قدر خراب ہوجائے گی کہ انہیں پنجاب ہی میں شکست سے دوچار ہونا ہوگا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ڈیڑھ سال میں حکومت کے ذریعے عوامی حمایت کو بحال کرلیں گی۔
ان کے مطابق مسلم لیگ ن کے اپنے لوگوں نے بھی پارٹی کے کئی فیصلوں کو تسلیم نہیں کیا ہے۔اس لیے مقامی سطح پر پائے جانے والے پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی اس شکست کے اسباب میں شامل ہیں۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کا مشکل فیصلوں کا بیانیہ اب پٹ چکا ہے اور ان کے پاس عام انتخابات کی طرف جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔