جی سیون ملکوں کے وزرائے خارجہ نے ایک وڈیو کانفرنس میں جسکی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی کرونا کی وبا سے نمٹنے کے لئے مل جل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اور امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اس عالمی وبا کو ختم کرنے اور عالمی معیشت کی بحال کرنے کے لئے چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔
لیکن، جیسا کہ محکمہ خارجہ سے نامہ نگار نائیک چینگ نے بتایا ہے کہ بعض تجزیہ کاروں کو اس بات میں شبہ ہے کہ یہ دونوں مل کر اس عالمی وبا کو ختم کرنے کے لئے کام کر سکتے ہیں۔
چین کے باہر اٹلی، امریکہ اور جرمنی ان جی سیون ملکوں میں شامل ہیں جن کو اس مہلک وائرس نے بری طرح متاثر کیا ہے اور اس وبا سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر مربوط کوششوں کی ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا ہے۔
جی سیون کے وزرائے خارجہ کی وڈیو کانفرنس کے دوران امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کی امریکہ کی خواہش اور رضامندی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ عالمی مسئلہ ہے اور امریکہ چین سمیت دنیا کے ہر ملک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔
اس وبا سے بہت پہلے سے امریکہ اور چین کے تعلقات تنزلی کا شکار تھے اور کرونا کی وبا نے ان میں مزید خرابی پیدا کر دی ہے۔
سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ڈریو تھامسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین سے طبی آلات امریکہ برآمد کرنے پر پابندی کی دھمکی اور دونوں ملکوں کے عہدیداروں کے درمیان اس بارے میں لفظی جنگ کہ یہ وائرس کہاں پیدا ہوا یہ اشارہ دیتی ہے کہ شاید دو طرفہ تعلقات کی بنیاد پر کام کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے پاس کوئی فورم نہیں ہے اور شاید یہ کشیدگی کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جائیں۔
تاہم، ایک اور تجزیہ کار مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر زبیر اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو صورت حال ہے اس میں یہ ناگزیر ہے کہ یہ دونوں مل کر کام کریں، کیونکہ یہ دونوں دنیا کی اہم ترین معیشتیں ہیں اور ان دونوں نے مل کر کام نہ کیا تو عالمی سطح پر بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال عالمی کساد بازاری میں بدل سکتی ہے، جس کا کوئی بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔
انکا کہنا تھا کہ جی سیون اور آئی ایم ایف سمیت دوسرے عالمی ادارے انکے اختلافات کو ختم کراکے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے فورم فراہم کر سکتے ہیں۔
تاہم، جی سیون ممالک کے وزرائے خارجہ اس بارے میں کوئی مشترکہ بیان جاری نہ کرسکے اور جزوی طور پر اسکی وجہ یہ تھی کہ اطلاعات کے مطابق، ارکان کے درمیان اس بات پر اختلاف تھا کہ اس وائرس کو ووہان وائرس کہا جائے یا نہیں۔