رسائی کے لنکس

امریکی وزیر دفاع کی نئی میڈیا پالیسی پر صحافیوں کو تشویش


وزیرِ دفاع گیٹس کا کہنا ہے کہ اُن کا مقصد میڈیا کی رسائی کو محدود کرنا نہیں۔ تاہم، وہ چاہتے ہیں کہ اِس بات کو کنٹرول کیا جائے کی اُن کے محکمے کے لوگ پریس کے سامنے کیا بات کریں اور کس کے بارے میں بات کریں

وزیرِ دفاع گیٹس نے جمعرات کے دِن ایک نیوز کانفرنس میں وہی بات دہرائی جو وہ ساڑھے تین سال کے دوران اپنے عہدِ وزارت میں کئی بار کہہ چکے ہیں۔

رابرٹ گیٹس نے کہا کہ اپنی وزارت کے ابتدائی مہینوں میں اُنھوں نے اپنے سامعین کو باور کرانے کی کوشش کی کہ پریس دشمن نہیں ہے اور اُس کے ساتھ دشمنوں جیسا برتاؤ الٹا نقصان دہ اور اپنے آپ کو شکست دینے کے مترادف ہوگا۔

گیٹس نے کہا کہ اُنھوں نے اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا۔ تاہم، اُن کے بہت بڑے محکمے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نامہ نگاروں سے ایسی باتیں بھی کرجاتے ہیں جو اُنھیں نہیں کرنی چاہیئے ۔

اُنھوں نے کہا کہ میڈیا کے سامنے اِس طرح کی باتیں کرنے کی وجہ سے اُنھوں نے اپنے دو سینئر فوجی افسروں کے استعفے منظور کیے۔ اُن میں افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل اسٹینلی مک کرسٹل کا استعفیٰ بھی شامل ہے۔

وزیرِ دفاع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اُنھوں نے امریکی خارجہ پالیسی کے بارے میں ایک بیان دینے پر اپنے ایک سینئر افسر کو تنبیہ بھی کی۔ حکام نے اُس افسر اور خارجہ پالیسی کے موضوع کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

اِس ہفتے ہونے والی ایک بریفنگ اور نامہ نگاروں کی تنظیموں کے اقدامات کی روشنی میں محکمہٴ دفاع کو کَور کرنے والے صحافیوں نے اِس نئی پالیسی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ افسران وزیر دفاع کی ناراضگی کے خطرے کے پیشِ نظر ہر قسم کی بات کرنے سے گریز کریں گے یا وہ کوئی خبر دینے سے پہلے سرکاری طور پر اُس کی منظوری حاصل کرنے کو ترجیح دیں گے۔ چنانچہ، نامہ نگاروں کو اندیشہ ہے کہ اِس طرح کی سرکاری کاروائی کے نتیجے میں کافی وقت لگ جایا کرے گا۔

وزیرِ دفاع گیٹس کا کہنا ہے کہ اُن کا مقصد میڈیا کی رسائی کو محدود کرنا نہیں۔ تاہم، وہ چاہتے ہیں کہ اِس بات کو کنٹرول کیا جائے کی اُن کے محکمے کے لوگ پریس کے سامنے کیا بات کریں اور کس کے بارے میں بات کریں۔

اُس کے ساتھ ساتھ گیٹس نے یہ بھی کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے محکمے کے مسائل کے بارے میں اہم خبریں میڈیا تک پہنچنی چاہئیں۔

فی الحال، عسکری امور سے متعلق نامہ نگاروں اور ایڈیٹروں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ 60دِنوں تک اِس نئی میڈیا پالیسی کا جائزہ لیں گے اور پھر یہ فیصلہ کریں گے کہ کیا اِس سلسلےمیں کسی تبدیلی کا مطالبہ کیا جائے۔

XS
SM
MD
LG