پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر اپنا دو روزہ دورہ ایران مکمل کرکے واپس پہنچ گئے ہیں۔ اپنےاس دورے میں انہوں نے ہمسایہ ملک کی اعلیٰ سول اور عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں جس میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد باقری شامل ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے جاری بیان کے مطابق ملاقاتوں میں دہشت گردی، پاک ایران تعلقات، علاقائی امن و سلامتی سمیت دیگر امور پر بات چیت کی گئی جب کہ دہشت گردی کو خطے اور دونوں ممالک کیلئے مشترکہ خطرہ قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ معلومات کے تبادلے اور مشترکہ کارروائیوں سے دہشت گردی کے خاتمہ کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں آرمی چیف کے اس دورے کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
آرمی چیف کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب حال ہی میں چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان امن معاہدہ ہوا ہے اور گزشتہ ماہ پاکستان، ایران اور چین نے بیجنگ میں انسداد دہشت گردی سے متعلق اپنا پہلا سہ فریقی اجلاس منعقد کیا۔
اس کے علاوہ ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میںِ، جس کی طویل سرحدیں افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہیں، حالیہ عرصے میں حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستانی عسکریت پسندوں کے سرحد پار حملوں کی وجہ سے حالیہ برسوں میں ایران اور پاکستان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ خطے میں ابھرتے ہوئے نئے اتحاد کے لیے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری ضروری ہے جسے دیکھتے ہوئے آرمی چیف کے دورے کو غیر معمولی تصور کیا جانا چاہئے۔
خطے میں اتحاد کے لیے پاک ایران بہتر تعلقات ضروری ہیں!
برسلز میں مقیم عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے پاکستانی اسکالر عمران ثاقب کہتے ہیں کہ خطے کے ممالک پر مشتمل ایک نیا سیاسی اتحاد بن رہا ہے جو کہ معاشی تعاون کی بنیاد پر وجود پا رہا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس اتحاد کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری لانا ضروری ہے۔
وہ کہتے ہیں غیر ریاستی عناصر کے سرحد پر حملوں کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہورہے تھے۔
عمران ثاقب نے کہا کہ گزشتہ ماہ چین نے سہ ملکی اجلاس بلایا جس کے بعد غیر ریاستی عناصر کے خلاف عملی اقدامات اٹھائے گئے تاکہ تعلقات میں اعتماد پیدا کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایک طرف روایتی حریف بھارت ہے جب کہ دوسری جانب افغانستان کے ساتھ سرحد بھی محفوظ نہیں اور ایسے میں اگر ایران کے ساتھ بھی سرحدی مسائل کھل جائیں تو ملک تین اطراف سے گھر جاتا ہے۔
بدلتے حالات میں عاصم منیر کا دورہ اہمیت کا حامل ہے!
تہران میں مقیم سحر ٹی وی سے منسلک پاکستانی صحافی عظیم سبزواری کہتے ہیں کہ علاقائی تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان کے آرمی چیف کا دورہ تہران بہت اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے کا مقصد سیکیورٹی کے وقتًا فوقتاً سامنے آنے والے معاملات کو دیکھنا اور دفاعی و انٹیلی جینس تعاون کو پائیدار بنانا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ دفاعی و سرحدی امور اعلیٰ عسکری حکام کے درمیان ہی طے پاسکتے ہیں اور اس دورے کے نتائج نہ صرف بارڈر مینجمنٹ بلکہ تجارت کے فروغ کی صورت بھی سامنے آئیں گے۔
عظیم سبزواری نے کہا کہ دونوں ملک سیکیورٹی و دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ اقتصادی تعاون میں بھی فروغ چاہتے ہیں اور جب سرحدیں محفوط ہوں گی تو ہی سرحد پر تجارتی منڈیاں اور دوطرفہ آمد و رفت بہتر ہوسکے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں نئی سیاسی و اقتصادی طاقتیں ابھر رہی ہیں اور ہمارے خطے کے ممالک میں بھی یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ وہ باہمی تعاون سے ترقی کے سفر کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
پاکستان روس، چین، ایران اتحاد میں شمولیت چاہتا ہے!
دفاعی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ عاصم منیر کے دورہ تہران کے دوران انٹیلی جینس اور سیکیورٹی کے علاوہ تجارت پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب عالمی مالیاتی اداروں اور مغرب نے اسلام آباد کو مشکل معاشی حالات میں سہارا نہیں دیا ہے پاکستان معاشی متبادل تلاش کررہا ہے۔
ہما بقائی نے کہا کہ چین روس اور ایران کا اتحاد پہلے سے ہے اور پاکستان بھی خود کو ان کے ساتھ منسلک کرنا چاہتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کی سرحدوں پر صورت حال بھی مخدوش ہے خاص طور پر افغانستان کی طالبان حکومت کے حالیہ بیانات کے پس منظر میں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیر دفاع اور فوج کی کور کمانڈز کانفرنس میں افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کی سخت الفاظ میں بات کی گئی ہے۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنی طویل سرحد کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔
آرمی چیف عاصم منیر کا دورہ تہران ایسے وقت بھی ہوا ہے جب پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے درمیان تناؤ بڑھ گیا ہے جو کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں کو افغان طالبان کی جانب سے دی گئی پناہ کے باعث پیدا ہوا ہے۔
ریاض و تہران معاہدے سے پاکستان کے لیے مواقع کھلے ہیں!
گزشتہ ماہ پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے نوسو کلومیٹر طویل سرحد پر واقع پشین، منڈ سرحدی گزرگاہ پر تجارتی منڈی اور پاکستان کو 100 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا مشترکہ افتتاح کیا تھا۔
چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی کے بعد اسلام آباد اور تہران کے تعلقات میں گرم جوشی پائی جاتی ہے اور دونوں ملکوں نے دفاع، سرحدی امور سمیت تجارت میں اضافے کے اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان نے ایران سمیت چین، روس اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ یعنی مال کے بدلے مال کے تبادلے کا فیصلہ کیا تھا۔
تجزیہ کار عمران ثاقب نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب طویل عرصے سے پاکستان میں اپنی پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے ایسے عناصر بن گئے ہیں جو دو ہمسایہ ملکوں کے لئے نقصان دہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے سے دونوں ملکوں کے درمیان نفرت میں کمی آئی ہے اور اس صلح کے پاکستان پر بھی مثبت اثرات سامنے آ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ صلح کے بعد چین نے سعودی عرب کو سی پیک میں اسٹیٹجک شراکت دار بنا دیا ہے اور خطے کے ممالک مشترکہ تعاون کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
آرمی چیف نے خارجہ پالیسی کی سمت وضع کر دی!
ہما بقائی کے بقول ریاض اور تہران کے درمیان برف پگھلنے سے پاکستان کے لیے ایران سے اپنے تعلقات میں زیادہ بہتری لانے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس مقصد کے لیے سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ عسکری قیادت بھی سامنے آئی ہے تو خیال یہی ہے کہ اس عمل کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عاصم منیر کے حالیہ دوروں نے خارجہ پالسی کی سمت واضع کر دی ہے اور فوجی اور عسکری قیادت میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔