امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل جوزف ڈنفورڈ نے ترکی کا دورہ کیا ہے جس میں انھوں نے ترک رہنماؤں سے ملاقات میں گزشتہ ماہ ہونے والی بغاوت کی مذمت کی۔
15 جولائی کی ترک فوج کے ایک گروپ نے حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کی تھی جسے عوام نے پولیس کے ساتھ مل کر ناکام بنا دیا تھا۔ ترک قیادت اس بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام امریکہ میں مقیم جلاوطن ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن پر عائد کرتے ہوئے ان کی حوالگی کا مطالبہ کر چکی ہے جب کہ اس نے امریکہ سمیت مغربی ملکوں کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ انھوں نے اس بغاوت کی "کھل کر مذمت" نہیں کی۔
بظاہر اسی شکایت کو رفع کرنے کے لیے جنرل ڈنفورڈ پیر کو ترکی کے دورے پر پہنچے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے امریکی جنرل کو بتایا کہ "یہ بہت اہم ہے کہ امریکہ اور ہمارے دوسرے اتحادی، ہماری قوم اور جمہوریت کے خلاف ہونے والی بغاوت کی کوشش پر واضح اور فیصلہ کن موقف اپنائیں۔"
بیان میں کہا گیا جنرل ڈنفورڈ نے ترک وزیراعظم کو بتایا کہ ان کا یہ دورہ اظہار یکجہتی کے ساتھ ساتھ امریکہ کی ترکی میں جمہوریت کی حمایت کے اظہار کے لیے ہے۔
جنرل ڈنفورڈ نے شدت پسند گروپ داعش کے خلاف لڑائی میں ترکی کی کوششوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔
امریکہ یہ کہہ چکا ہے کہ اگر گولن کی ترکی کو حوالگی کے لیے ضروری ہے کہ انقرہ اس بارے میں قابل اعتماد شواہد فراہم کرے۔
جنرل ڈنفورڈ نے انجرلک کے فضائی اڈے پر موجود امریکی فوجیوں سے بھی ملاقات کی۔ ترکی نے یہ اڈہ امریکہ کی زیرقیادت داعش مخالف اتحاد کو فضائی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔