جرمنی میں ہزاروں افراد نے اس ترک نژاد نوجوان خاتون کی آخری رسومات میں شرکت کی جسے دو کم عمر لڑکیوں کو ہراساں کرنے والوں سے بچانے کی پاداش میں اپنی جان گنوانا پڑی۔
توگسی البایراک کا جنازہ بدھ کو وائچٹر سباخ نامی علاقے کی مسجد میں ادا کی گئی جس میں اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ جرمنی میں ترکی کے سفیر بھی شریک ہوئے۔
تابوت کو جرمنی اور ترکی کے قومی پرچموں میں لپیٹا گیا تھا اور اس موقع پر ہزاروں افراد توگسی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہاں موجود تھے۔ ان افراد نے توگسی کو "عزم و ہمت" کی ایک قومی ہیروئن قرار دیا۔ بعد ازاں ان کی تدفین سالمونسٹر میں کی گئی۔
گزشتہ ماہ اوفنباخ میں واقع میکڈونلڈز ریسٹورنٹ میں دو لڑکیوں کو نوجوان ہراساں کر رہے تھے کہ وہاں موجود توگسی نے ان لڑکیوں کو بچایا۔ بعد ازاں ریسٹورنٹ کے باہر نوجوانوں میں سے ایک نے توگسی پر حملہ کیا اور ان کا سر زمین سے ٹکرایا۔
توگسی کے سر پر لگنے والی چوٹ اتنی شدید تھی کہ ڈاکٹروں نے ان کے دماغ کو مردہ قرار دے دیا۔ اس باہمت خاتون کو کئی روز تک مصنوعی طور پر زندہ رکھنے والے آلات پر رکھا گیا لیکن اس کے والدین نے گزشتہ جمعہ کو عین اس کی 23 ویں سالگرہ والے دن ان آلات کو ہٹانے کا کہا۔
توگسی کی موت سے جرمنی میں ان کی ہمت اور بحیثیت قوم جرمنی کا اپنے ہاں تارکین وطن سے حسن سلوک کو بہتر کرنے اور امتیازی سلوک کی تاریخ کو پس پشت ڈالنے کی ایک بحث کو جنم دیا۔
آخری رسومات میں شریک ہونے والوں میں سے اکثر نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر توگسی کی تصویر اور یہ تحریر درج تھی کہ "تم ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہو گی۔"
جرمن میڈیا میں بھی توگسی کی آخری رسومات کی وسیع کوریج کی گئی۔ موقر اخبار بیلد کی شہ سرخی کچھ یوں تھی " جرمنی کی طرف سے ایک ہیروئن کو الوداع، توگسی کے بعد ہم سب نمناک ہیں۔"
جرمنی کے صدر جواشم گاک نے توگسی کے والدین کے نام لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ "میں اس اندوہناک واقعے پر دیگر لاتعداد شہریوں کی طرف خوفزدہ اور غمزدہ ہوں، ہمارا ملک آپ کے غم میں شریک ہے۔"
تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار افراد نے انٹرنیٹ پر ایک درخواست پر دستخط کیے ہیں جس میں توگسی کو اعلیٰ ترین اعزاز "آرڈر آف میرٹ" دینے کی سفارش کی گئی ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن سیبرٹ کا کہنا تھا کہ صدر گاک اور چانسلر آنگیلا مرخیل نے عندیہ دیا ہے کہ اس بارے میں تقریب منعقد کی جاسکتی ہے۔
میکڈونلڈز نے جرمن اور ترک اخبارات میں پورے صفحے کے اشہتارات دیے جس میں توگسی کے لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا گیا کہ " توگسی نے دوسروں کو بچانے میں اپنی جان گنوائی۔"
توگسی کے والدین 1970 کی دہائی میں ترکی سے جرمنی منتقل ہوئے تھے۔
توگسی کی ہلاکت کے واقعے میں ایک 18 سالہ نوجوان اس وقت پولیس کی حراست میں ہے جس کی شناخت توگسی کے ساتھ موجود اس کی سہیلیوں میں سے ایک نے کی تھی۔ اس نوجوان کا تعلق اطلاعات کے مطابق سربیا سے بتایا جاتا ہے۔