جرمنی نے 2010 کے ورلڈ کپ میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ فیصلہ کُن گول سمی کھدیرا نے کیا جو جرمنی کی قومی ٹیم میں بہت سے ثقافتوں کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔کھدیرا کے والد کا تعلق تیونس سے ہے ۔ انھوں نے یہ گول 82 ویں منٹ میں کیا اور جرمنی کو یوراگوئے پر 3-2 کی سبقت دلا کر فتح سے ہمکنار کیا۔
جرمن ٹیم کے دس دوسرے ارکان کے گھرانوں کا تعلق بھی بیرونی ملکوں سے ہے ۔ ان میں بوسنیا، برازیل، گھانا، نائجیریا، پولینڈ اور ترک نسل کے کھلاڑی شامل ہیں۔جرمن لیڈروں نے ٹیم کے اس تنوع کی تعریف کی ہے اور اسے ملک کی معاشرت میں تارکین وطن کے ضم ہونے کا ماڈل قرار دیا ہے۔
جرمنی میں تارکین وطن ملک کی آٹھ کروڑ20 لاکھ کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں۔ ان کی کل تعداد تقریباً ایک کروڑ50 لاکھ ہے ۔
برلن کے ایوانِ نمائندگان میں اوزکان موتلوگرین پارٹی کی نمائندگی کرتےہیں۔ وہ ترکی میں پیدا ہوئے تھے لیکن انہیں جرمن شہری بنے 20 برس گذر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے بہت سے ساتھی انہیں مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔’’میں خود کو جرمن محسوس کرتا ہوں، میں خواب دیکھتے وقت بھی جرمن ہی رہتا ہوں، میرا طرز عمل جرمنوں جیسا ہے، یہاں تک کہ مجھے غصہ بھی جرمن زبان میں آتا ہے۔ لیکن مجھے اب بھی اگلے گھر میں رہنے والا ترک سمجھا جاتا ہے۔ آپ کو اس بات سے اندازہ ہوگا کہ مسئلہ کتنا شدید ہے۔‘‘
موتلو کہتے ہیں کہ بہت سے جرمن اب بھی ایسا معاشرہ پسند کرتے ہیں جس میں سب لوگ ایک جیسے ہوں۔ انہیں تنوع پسند نہیں۔ انھوں نے سینٹرل بنک کے بورڈ کے ایک رکن تھیلو سارازِن کا خاص طور سے ذکر کیا جنھوں نے جون کے مہینے میں کہا تھا کہ تارکین وطن کی وجہ سے جرمنی کچھ زیادہ ہی احمق نظر آتا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں تعلیم کم ہے اور شرح پیدائش بہت زیادہ ہے ۔
موتلو کے کہتے ہیں’’بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ لوگ ایسی بات سن کر یہ نہیں کہتے کہ یہ نسل پرستی کا جنون ہے۔لوگ توکہتے ہیں کہ یہ کتنا جرأت مند شخص ہے۔ اس نے وہ بات کہہ دی جو کسی میں کہنے کی ہمت نہیں تھی۔ یا بعض لوگ کہتے ہیں کہ عام طور سے تو وہ صحیح بات کہتے ہیں لیکن اس بار الفاظ کے انتخا ب میں ان سے غلطی ہوگئی۔ اب بتائیے یہ نسل پرستی نہیں تو اور کیا ہے۔‘‘
تارکین وطن اور ان کے بچوں کو جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے بھی ایسی ہی شکایتیں ہیں۔ اس پارٹی کی تین ریاستوں کی پارلیمینٹوں میں نشستیں ہیں۔ 2006 کےورلڈ کپ میں، اس پارٹی نے جرمن فٹبال ٹیم میں ایک سیاہ فام کھلاڑی کی شمولیت پر اعتراض کیا۔ اس نے اشتہار چھاپے جن میں کہا گیا تھا کہ صحیح معنوں میں قومی ٹیم میں سفید فام کھلاڑی ہونے چاہئیں۔ ایک عدالت نے NPD کونسلی منافرت پھیلانے کا مجرم قرار دیا۔
جرمنی میں تارکین وطن کی کمیونٹی میں ناراضگی کی ایک اور وجہ تعلیم کا شعبہ ہے ۔ اس مہینے جرمن حکومت کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جن بچوں کا تعلق تارکین وطن کے خاندانوں سے ہے، جرمن نسل کے بچوں کے مقابلے میں، یونیورسٹی میں جانے کی تیاری کے لیے اعلیٰ معیار کے اسکولوں میں ان بچوں کے داخلوں کا امکان کم ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تارکین وطن اور ان کے بچوں کو روزگار کی تلاش میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔اس صورت حال کی وجہ اقتصادی انحطاط اور 1990 میں برلن شہر کے متحد ہونے کے بعد پیدا ہونے والا خلفشار ہے ۔
لیکن بعض جرمن باشندے کہتے ہیں تارکین وطن نے خود کو عام جرمن معاشرے سے الگ تھلگ کر لیا ہے ۔ وہ ایسی الگ بستیوں میں رہتے ہیں جہاں بہت کم جرمن زبان بولی جاتی ہے ۔جرمن پارلیمینٹ کے قدامت پسند رکن جوایچم پفئیفر کا کہنا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ لوگ ایک مشترکہ زبان بولیں، حکومت کو زیادہ کوشش کرنی چاہیئے ۔’’جرمنی میں ہم جرمن زبان بولتے ہیں۔ جرمنی میں ترک نسل کے لوگوں کی تعداد تقریبا 25 لاکھ ہے۔ اگر یہ لوگ جرمن زبان نہ جاننے کی وجہ سے معاشرے میں اور لیبر مارکٹ میں شامل نہیں ہوتے تو اس سے کوئی مدد نہیں ملتی ۔‘‘
جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ اسے تارکین وطن کی آبادی میں شامل بعض انتہا پسند اسلامی عناصر سے دہشت گردی کے روز افزوں خطرے کا بھی سامنا ہے ۔جرمنی کے فیڈرل کرائم آفس نے اس سال کے شروع میں کہا تھا کہ وہ جرمنی میں 1,100 ایسے افراد پر نظر رکھے ہوئے ہے جن سے اسے دہشت گردی کے سرگرمیوں میں شرکت کا خطرہ ہے ۔ سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ حکومت انتہا پسندی کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے، اماموں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ نوجوانوں میں اعتدال پسند اسلام کی تبلیغ کریں۔