رسائی کے لنکس

گلگت بلتستان میں سیاسی بحران؛ وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب پر عدالت کا حکمِ امتناع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ بیرسٹر خالد خورشید کی جعلی ڈگری کیس میں چیف کورٹ سے نا اہلی کے بعد سیاسی بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے۔

گلگت بلتستان کی سپریم ایپلٹ کورٹ نے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب پر حکمِ امتناع جاری کر دیا۔

گورنر گلگت بلتستان نے ایک اعلامیے میں سپریم اپیلٹ کورٹ کے ایک مراسلے میں حالات سے نمٹنے کے لیے وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر انتخاب روکنے اور اسمبلی اجلاس کو ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

سپریم اپیلٹ کورٹ نے سابق وزیر تعلیم گلبر خان کی آئینی درخواست پر اسپیکر اسمبلی کو فوری طور پر طلب کیا۔

پی ٹی آئی کے گلبر خان نے آئینی درخواست میں وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر انتخابی شیڈول کو معطل کرنے کی استدعا کی تھی۔

گلگت بلتستان کی اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے اجلاس اورنئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب روکنے کے اسمبلی کے اسپیکر کے خلاف منگل کی شب تحریکِ عدم اعتماد بھی جمع کرائی تھی۔

واضح رہے کہ گلگت بلتستان میں تحریکِ انصاف کی حکومت قائم تھی جو کہ وزیر اعلیٰ خالد خورشید کے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نا اہل ہونے کے بعد ختم ہو گئی ہے ۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی چند ماہ قبل تحریکِ انصاف کی حکومت گروپ بندی اور حزبِ اختلاف کی تحریکَ عدم اعتماد کے باعث ختم ہو گئی تھی۔

بیرسٹر خالد خورشید کے بطور وزیرِ اعلیٰ نا اہل ہونے کے بعد تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کے لیے راجہ اعظم خان کو امیدوار نامزد کیا ہے۔راجہ اعظم بیرسٹر خالد خورشید کی کابینہ میں وزیرِ تعلیم تھے۔

وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے کئی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے باوجود اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے انتظامات شروع نہیں کیے گئے۔

تحریکِ انصاف اور حزبِ اختلاف کے تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی میں موجود ہیں۔

اسی دوران پولیس کی بھاری نفری اسمبلی سیکرٹریٹ میں داخل ہوئی۔

صحافی فہیم اختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حالات بہت گھمبیر ہیں جب کہ اطلاعات ہیں کہ پولیس گزشتہ کابینہ میں شامل بعض وزرا اور مشیروں کو حراست میں لینے کے لیے عمارت میں داخل ہوئی تھی۔ البتہ اس حوالے سے حکام کا سرکاری طور پر کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔

تحریکِ انصاف گلگت بلتستان کے رہنما اور خالد خورشید کے معاون صابر حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ خالد خورشید کی نا اہلی کے بعد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اب تحریکِ انصاف میں دراڑیں پیدا کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔

گلگت بلتستان کی سیاسی صورتِ حال پر تجزیہ کار فیض اللہ فراق کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی گلگت بلتستان میں حکومت کا برقرار رہنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

رہنما پی ٹی آئی صابر حسین نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کو پر کرنے کے لیے شیڈول جاری کیا گیا اور کاغذات نامزدگی بھی جمع ہوئے مگر اس عہدے پر انتخابات ہونے کے امکانات کم ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ ایک رکنِ اسمبلی نے اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا ہے جب کہ پی ڈی ایم میں شامل تین جماعتوں کے اراکین نے اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔

فیض اللہ فراق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تحریکِ انصاف کی مشکلات میں اضافہ دکھائی دیتا ہے کیوں کہ پارٹی میں کئی گروہ سامنے آئے ہیں۔

گلگت بلتستان کے صحافی فہیم اختر نے تحریکِ انصاف میں گروہ بندی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ راجہ اعظم خان کے علاوہ فتح اللہ خان، جاوید منوا اور حاجی گلبر خان بھی وزراتِ اعلیٰ کے امیدواروں میں شامل ہیں جب کہ حزبِ اختلاف سے تین امیدواروں میں پیپلز پارٹی کے امجد ایڈووکیٹ اور مسلم لیگ (ن) کے انجینئر انور شامل ہیں۔

فیض اللہ فراق کا کہنا ہے کہ اگر تحریکِ انصاف کی حکومت برقرار رہے تو بھی وفاق میں موجود پی ڈی ایم کی حکومت کے ساتھ اس کے اختلافات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ا سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے بعد بعض حلقے اب اس معاملے کو بھی عدالت لے گئے ہیں جس سے نہ صرف وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر انتخاب التوا کا شکار ہو سکتا ہے بلکہ گورنر راج کے نفاذ کے خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔

گلگت بلتستان کے صحافی مہتاب خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر انتخاب کے شیڈول آنے سے قبل حزبِ اختلاف میں شامل جماعتوں کے نو ارکانِ اسمبلی نے اسپیکر نذیر احمد کے خلاف منگل کی رات تحریکِ عدم اعتماد اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی ہے ۔

ان کے بقول اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کا بظاہر مقصد وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب روکنا ہے ۔

مہتاب خان کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف میں شامل ارکانِ اسمبلی کی تعداد بہت کم ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ کسی طریقے سے تحریکِ انصاف کے بجائے اپنے امیدوار کو وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر منتخب کرائیں ۔

ان کا دعویٰ تھا کہ حزبِ اختلاف نومبر 2021 کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کےٹکٹ پر منتخب ہونے والے ایک رکنِ اسمبلی امجد زیدی کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امجد زیدی اسپیکر اسمبلی تھے مگر جب انہوں نے وفاق میں بدلتی ہوئی صورتِ حال کے بعد مبینہ طور پر حزبِ اختلاف کے ساتھ رابطے قائم کیے تو تحریکِ انصاف نے ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرکے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

گلگت بلتستان کے ایک اور سینئر صحافی رجب قمر کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایوان میں تحریکِ انصاف کو واضح برتری حاصل ہے۔ بیرسٹر خورشید کے عہدے سے ہٹنے کے بعد راجہ اعظم خان کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہونے کے امکانات ہیں ۔

ان کے بقول پاکستان کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کی کوشش ہے کہ تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے اراکین کو اپنے ساتھ ملائے ۔

اسمبلی میں نمبر گیم

گلگت بلتستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 33 ہے مگر بیرسٹر خورشید کی نااہلی کے بعد یہ تعداد کم ہو کر32 رہ گئی ہے۔

اب 32 اراکین کے ایوانِ میں تحریک انصاف کے 19 اور اسے دو اتحادی جماعتوں کے چار ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ یوں پی ٹی آئی کو 23 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

دوسری جانب حزبِ اختلاف کے نو اراکین میں پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد 4، مسلم لیگ (ن) کے 3، جمعیت علماء اسلام (ف) کا ایک اور ایک آزاد رکن شامل ہے ۔

تحریکِ انصاف سے ایک رکن مبینہ طور پر منحرف ہو چکا ہے۔

مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کی کوشش ہے کہ تحریکِ انصاف ہی کے ارکان کا ایک گروپ بنا کر ان کے ساتھ اتحاد کر لے۔

گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے وزیر اعلیٰ خالد خورشیدکے عہدے سے ہٹنےکے بعد ان کی کابینہ میں شامل وزرا اور دیگر عہدیداروں کو ان کے عہدوں سے سبکدوش کرنے کا اعلامیہ جاری کر دیا ہے۔

جن افراد کو عہدوں سے سبکدوش کیا گیا ہے ان میں 12 وزرا، 2 مشیر، 5 معاون خصوصی، 21 اسپیشل کوآرڈنیٹر اور 6 پارلیمانی سیکریٹری شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG