پاکستان کے طاقتور فوجی ادارے کے ساتھ محاذ آرائی سے بظاہر پسپائی اختیار کرتے ہوئے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہان پر آئین کی خلاف ورزی کے اپنے الزامات سے دستبردار ہو گئے ہیں۔
عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کے لیے بدھ کو سوئٹزرلینڈ روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کو درپیش صورت حال اداروں کے مابین تصادم کی اجازت نہیں دیتی بلکہ یہ اداروں میں ہم آہنگی کی متقاضی ہے۔
میمو اسکینڈل سے متعلق مقدمے میں فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کی جانب سے عدالت عظمٰی میں جمع کرائے گئے بیاناتِ حلفی کو خلاف آئین قرار دینے کی وضاحت کرتے ہوئے مسٹر گیلانی نے کہا کہ چینی میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے اپنی رائے کا اظہار ’’مخصوص حالات‘‘ میں کیا تھا۔
’’اُس وقت تواتر سے مختلف واقعات رونما ہو رہے تھے، بعض سرکاری افسران بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے تھے۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم کے بقول تحقیقات کے بعد جب یہ واضح ہوا کہ کچھ افسران کے فرائض کی ادائیگی میں تضادات اس ابہام کا باعث بنا تو اُن کے خلاف کارروائی کی گئی۔
’’اس لیے اب آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے عدالت عظمٰی میں داخل کرائے گئے بیاناتِ حفلی کوغیر آئینی اور خلاف ضابطہ قرار دینے کی میری اُس رائے کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی۔‘‘
وزیر اعظم گیلانی نے یہ بیان فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا سے ایک روز قبل ہونے والی طویل ملاقات کے بعد دیا ہے۔
یہ پیش رفت پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی فوج کے ساتھ کئی ہفتوں سے جاری کشیدگی میں کمی کی نشاندہی کرتی ہے جس کا بنیادی سبب عدالت عظمٰی کے سامنے متنازع ’میمو‘ یا مراسلے کے بارے میں بیاناتِ حلفی میں سیاسی و فوجی قیادت کا متضاد موقف تھا۔
جنرل کیانی اور آئی ایس آئی نے مراسلے کو ایک حقیقت قرار دے کر اس کی تحقیقات کی حمایت کی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت ’میمو‘ کو کاغذ کا ایک بے وقعت ٹکڑا قرار دے کر مسترد اور اسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتی ہے۔
سپریم کورٹ کا متعین کردہ عدالتی کمیشن میمو کی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اس اسکینڈل کے مرکزی گواہ امریکی شہری منصور اعجاز تین رکنی کمیشن کے سامنے گواہی دینے کے لیے پاکستان آنے سے گریزاں ہیں کیونکہ ان کا الزام ہے کہ پاکستان میں اُن کی جان کو خطرہ ہے۔
تاہم منگل کو ہونے والے اجلاس میں کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائض عیسیٰ نے حکومتِ پاکستان کی طرف سے منصور اعجاز کو ہرممکن تحفظ فراہم کرنے کی واضح یقین دہانی کے بعد امریکی شہری کو گواہی دینے کا ایک آخری موقع فراہم کرتے ہوئے اُنھیں 9 فروری کو کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔