کراچی ۔۔۔۔ پاکستانی میوزک شروع ہی سے ایک سے بڑھ کر ایک ہیرے سے مالا مال رہا ہے۔ لیکن، کچھ گلوکار ایسے ہیں جو آندھی طوفان کی طرح آئے اور اپنی کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ سب کو پیچھے چھوڑ گئے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی ’گولڈن وائس‘ احمد رشدی ایسی ہی ایک روشن مثال ہیں۔
آج بھی شادی بیاہ ہو یا کوئی اور خوشی کا تہوار، ایک فاسٹ ٹریک ’کوکورینا‘ لازمی گایا، بجایا جاتا ہے اور یہ گانا جسے پاکستان فلم انڈسٹری کا پہلا ’پوپ سانگ‘ کہا جاتا ہے ساوٴتھ ایشیا کے پہلے پوپ سنگر احمد رشدی نے گایا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب گلوکار سیدھے کھڑے ہوکر سپاٹ تاثرات کے ساتھ گانا ریکارڈ کرواتے تھے، احمد رشدی ہلکے پھلکے، ہپ ہوپ قسم کے گانے اتنے مزے لے لے کر گاتے تھے کہ دیکھنے اورسننے والے بھی جھوم جھوم اٹھتے تھے۔
سنہ 1954میں احمد رشدی کے گانے ’بندر روڈ سے کیماڑی، چلی ہے میری گھوڑا گاڑی، بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر‘ نے شہرت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ اس کے بعد، تو گویا انہوں نے پیچھے مڑ کر ہی نہیں دیکھا۔
سال 1962میں ریلیز ہونے والی فلم ’مہتاب‘ کا گانا ’گول گپے والا، آیا گول گپے والا‘ آپ کو آج بھی کسی نہ کسی گلی سے گزرتے ہوئے گول گپے کے ٹھیلے پر گونجتا سنائی دے گا۔
احمد رشدی کی آواز سب سے زیادہ جس ہیرو پر سوٹ کرتی تھی وہ تھے وحید مراد اور شاید یہی وجہ ہے کہ رشدی وحید مراد کے گانے زیادہ ڈوب کر گایا کرتے۔رشدی کے گائے 150گانے وحید مراد پر پکچرائز کئے گئے۔
احمد رشدی صرف پوپ یا ہلا گلا والے گانے ہی مہارت سے نہیں گاتے تھے۔ جب جب انہوں نے ٹریجڈی گانے گائے، سننے والوں کی آنکھوں میں نمی ضرور آئی۔ سال 1966میں فلم ارمان کا گانا ’اکیلے نہ جانا، ہمیں چھوڑ کر تم، تمارے بنا ہم بھلا کیا جئیں گے‘ ہو یا فلم دوراہا کا نغمہ ’بھولی ہوئی ہوں داستاں‘ رشدی کی آواز کی گھمبیرتا اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔
بارش کا موسم ہو اور فضاوٴں میں سُر نہ بکھریں، ایسا ہو نہیں سکتا۔ فلم ’نصیب اپنا اپنا‘ کا گانا ’اے ابر کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں‘ اچھی موسیقی سننے والوں کے لئے برسات کے موسم میں پہلی چوائس ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ، شوخی کا انگ لئے ’کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے‘ میں رشدی کی آواز ایک نئے انگ میں سنائی دیتی ہے۔
احمد رشدی نے نورجہاں سمیت پاکستان کی صف اول کی تمام گلوکاراوٴں کے ساتھ ڈوئٹ گائے۔
احمد رشدی نے 583 فلموں میں 5 ہزار سے زائد گانے گائے، جن میں اُردو کے علاوہ انگریزی، پنجابی، بنگالی، سندھی اور گجراتی زبانوں کے گانے بھی شامل ہیں۔
گیارہ اپریل 1983ءکو محض 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے احمد رشدی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیکن، اپنے پیچھے انمول گانوں کا خزانہ چھوڑ گئے۔
آج بھی شادی بیاہ ہو یا کوئی اور خوشی کا تہوار، ایک فاسٹ ٹریک ’کوکورینا‘ لازمی گایا، بجایا جاتا ہے اور یہ گانا جسے پاکستان فلم انڈسٹری کا پہلا ’پوپ سانگ‘ کہا جاتا ہے ساوٴتھ ایشیا کے پہلے پوپ سنگر احمد رشدی نے گایا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب گلوکار سیدھے کھڑے ہوکر سپاٹ تاثرات کے ساتھ گانا ریکارڈ کرواتے تھے، احمد رشدی ہلکے پھلکے، ہپ ہوپ قسم کے گانے اتنے مزے لے لے کر گاتے تھے کہ دیکھنے اورسننے والے بھی جھوم جھوم اٹھتے تھے۔
سنہ 1954میں احمد رشدی کے گانے ’بندر روڈ سے کیماڑی، چلی ہے میری گھوڑا گاڑی، بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر‘ نے شہرت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ اس کے بعد، تو گویا انہوں نے پیچھے مڑ کر ہی نہیں دیکھا۔
سال 1962میں ریلیز ہونے والی فلم ’مہتاب‘ کا گانا ’گول گپے والا، آیا گول گپے والا‘ آپ کو آج بھی کسی نہ کسی گلی سے گزرتے ہوئے گول گپے کے ٹھیلے پر گونجتا سنائی دے گا۔
احمد رشدی کی آواز سب سے زیادہ جس ہیرو پر سوٹ کرتی تھی وہ تھے وحید مراد اور شاید یہی وجہ ہے کہ رشدی وحید مراد کے گانے زیادہ ڈوب کر گایا کرتے۔رشدی کے گائے 150گانے وحید مراد پر پکچرائز کئے گئے۔
احمد رشدی صرف پوپ یا ہلا گلا والے گانے ہی مہارت سے نہیں گاتے تھے۔ جب جب انہوں نے ٹریجڈی گانے گائے، سننے والوں کی آنکھوں میں نمی ضرور آئی۔ سال 1966میں فلم ارمان کا گانا ’اکیلے نہ جانا، ہمیں چھوڑ کر تم، تمارے بنا ہم بھلا کیا جئیں گے‘ ہو یا فلم دوراہا کا نغمہ ’بھولی ہوئی ہوں داستاں‘ رشدی کی آواز کی گھمبیرتا اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔
بارش کا موسم ہو اور فضاوٴں میں سُر نہ بکھریں، ایسا ہو نہیں سکتا۔ فلم ’نصیب اپنا اپنا‘ کا گانا ’اے ابر کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں‘ اچھی موسیقی سننے والوں کے لئے برسات کے موسم میں پہلی چوائس ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ، شوخی کا انگ لئے ’کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے‘ میں رشدی کی آواز ایک نئے انگ میں سنائی دیتی ہے۔
احمد رشدی نے نورجہاں سمیت پاکستان کی صف اول کی تمام گلوکاراوٴں کے ساتھ ڈوئٹ گائے۔
احمد رشدی نے 583 فلموں میں 5 ہزار سے زائد گانے گائے، جن میں اُردو کے علاوہ انگریزی، پنجابی، بنگالی، سندھی اور گجراتی زبانوں کے گانے بھی شامل ہیں۔
گیارہ اپریل 1983ءکو محض 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے احمد رشدی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیکن، اپنے پیچھے انمول گانوں کا خزانہ چھوڑ گئے۔