واشنگٹن —
انٹرنیٹ کے معروف سرچ انجن ’گوگل‘ نے ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کی رقم سے سیٹلائیٹوں کا ایک نیا بیڑا خریدا ہے جس کا مقصد انٹرنیٹ کو زمین کے مدار سے نکال کر چاند تک پہنچا دینا ہے۔ ہے نا حیرت کی خبر؟
معروف اخبار ’وال سٹریٹ جنرل‘ کے مطابق گوگل ماضی میں اس نوعیت کے تجربات میں حصہ لیتا رہا ہے گو کہ اس میں گوگل کو کامیابی نہیں حاصل ہو سکی تھی۔ مگر اب گوگل چاہتا ہے کہ اس نئے مجوزہ پلان میں کسی قسم کی مالیاتی یا تکنیکی رکاوٹوں سے بچنے کے لیے پہلے سے ہی کام کیا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، اس پروگرام کے آغاز میں 180 سیٹلائیٹ حاصل کیے جائیں گے مگر بعد میں سیٹلائیٹس کی یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔
یہ سیٹلائیٹ ایک ایسا نیٹ ورک بنائیں گے جو خلاء میں موجود دیگر سیٹلائیٹس کی نسبت نچلے مدار میں گھومیں گے۔
گوگل چاہتا ہے کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی رسائی کو آسان بنایا جائے۔ ماضی میں بھی گوگل نے انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے ’پراجیکٹ لُون باسکٹ‘ نامی پروگرام کا بھی آغاز کیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خلائی مدار میں سیٹلائیٹ بھیجنے پر ’پراجیکٹ لُون باسکٹ‘ کی نسبت زیادہ وقت اور پیسہ طلب ہوگا۔ مگر گوگل کے ماہرین کو توقع ہے کہ سیٹلائیٹس کی مدد سے مطلوبہ نتائج زیادہ بآسانی حاصل ہو جائیں گے۔
گوگل کی جانب سے سیٹلائیٹس کا وزن تقریباً 110 کلو گرام ہے۔ گذشتہ کئی برسوں میں سیٹلائیٹس کی تیاری میں خرچ ہونے والی رقم میں بے پناہ کمی آئی ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پراجیکٹ ابھی بھی گوگل کے غبارے والے پراجیکٹ کی نسبت کئی گنا مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔
’وال سٹریٹ جنرل‘ کے مطابق، جن ماہرین کو اس پراجیکٹ کے بارے میں معلومات حاصل ہیں، ان کے مطابق گوگل کے اس نئے پراجیکٹ کا تخمینہ ایک ارب ڈالر سے تین ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے۔
معروف اخبار ’وال سٹریٹ جنرل‘ کے مطابق گوگل ماضی میں اس نوعیت کے تجربات میں حصہ لیتا رہا ہے گو کہ اس میں گوگل کو کامیابی نہیں حاصل ہو سکی تھی۔ مگر اب گوگل چاہتا ہے کہ اس نئے مجوزہ پلان میں کسی قسم کی مالیاتی یا تکنیکی رکاوٹوں سے بچنے کے لیے پہلے سے ہی کام کیا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، اس پروگرام کے آغاز میں 180 سیٹلائیٹ حاصل کیے جائیں گے مگر بعد میں سیٹلائیٹس کی یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔
یہ سیٹلائیٹ ایک ایسا نیٹ ورک بنائیں گے جو خلاء میں موجود دیگر سیٹلائیٹس کی نسبت نچلے مدار میں گھومیں گے۔
گوگل چاہتا ہے کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی رسائی کو آسان بنایا جائے۔ ماضی میں بھی گوگل نے انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے ’پراجیکٹ لُون باسکٹ‘ نامی پروگرام کا بھی آغاز کیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خلائی مدار میں سیٹلائیٹ بھیجنے پر ’پراجیکٹ لُون باسکٹ‘ کی نسبت زیادہ وقت اور پیسہ طلب ہوگا۔ مگر گوگل کے ماہرین کو توقع ہے کہ سیٹلائیٹس کی مدد سے مطلوبہ نتائج زیادہ بآسانی حاصل ہو جائیں گے۔
گوگل کی جانب سے سیٹلائیٹس کا وزن تقریباً 110 کلو گرام ہے۔ گذشتہ کئی برسوں میں سیٹلائیٹس کی تیاری میں خرچ ہونے والی رقم میں بے پناہ کمی آئی ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پراجیکٹ ابھی بھی گوگل کے غبارے والے پراجیکٹ کی نسبت کئی گنا مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔
’وال سٹریٹ جنرل‘ کے مطابق، جن ماہرین کو اس پراجیکٹ کے بارے میں معلومات حاصل ہیں، ان کے مطابق گوگل کے اس نئے پراجیکٹ کا تخمینہ ایک ارب ڈالر سے تین ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے۔