رسائی کے لنکس

گورنر ہاؤس میں عوام کا داخلہ اور شہری آداب


لاہور کے گورنر ہاؤس کے دروازے عوام پر کھلنے کے بعد لوگوں کا ہجوم ، 16 ستمبر 2018
لاہور کے گورنر ہاؤس کے دروازے عوام پر کھلنے کے بعد لوگوں کا ہجوم ، 16 ستمبر 2018

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اتوار کے روز لاہور کا تاریخی گورنر ہاؤس عوام کے داخلے کے لئے کھول دیا ہے۔

اتوار کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد گورنر ہاؤس میں داخل ہوئی جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’’ بالآخر گورنر ہاؤس لاہور کے دروازے پاکستانی عوام پر کھل گئے۔ استعمار اور نو آبادیات کی نشانیاں ایک ایک کر کے زمین بوس ہو رہی ہیں۔ عوام اپنے حکمرانوں کو اپنائیں گے تو ہی ہم ایک ناقابل تسخیر قوم بنیں گے۔‘‘


پنجاب کے گورنر محمد سرور نے ایک ٹویٹ میں عوام کے جم غفیر کی ویڈیو پوسٹ کیں اور کہا کہ عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔

وزیراعظم عمران خان اپنی متعدد تقاریر میں یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پرتعیش سرکاری عمارات کو عوام کے لئے کھولیں گے اور انہیں یونیورسٹیوں اور تفریح گاہوں میں تبدیل کر دیں گے۔

سوشل میڈیا پر صارفین گورنر ہاؤس کی تصاویر پوسٹ کر رہے ہیں جن میں عوام کی جانب سے پھینکا جانے والا کوڑا کرکٹ دیکھا جا سکتا ہے۔

فیض احمد فیض کے نواسے علی ہاشمی نے ٹویٹ کی کہ جب انہوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ عوام کے گورنر ہاؤس میں داخلے سے گندگی پھیلے گی تو لوگوں نے انہیں برے ناموں سے پکارا تھا۔ اب گورنر ہاؤس بھی لاہور کے باقی عوامی پارکوں کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔

یہ خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ لوگ گورنر ہاؤس لاہور کے باغ میں درختوں کے پھل توڑتے رہے۔

اینکر ماریہ میمن نے ٹویٹ کی کہ اگر حکومت نے گورنر ہاؤس لوگوں کے لئے کھول کر ایک اچھا قدم اٹھا لیا ہے تو یہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اب احساس کریں۔

جب کہ اینکر امیر عباس نے لکھا کہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد گورنر ہاؤس کی ایسی تصاویر لگا رہے ہیں جس میں کوڑا کرکٹ بکھرا پڑا ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ گورنر ہاؤس کو عام لوگوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ غلط تھا۔ انہوں نے لکھا کہ کوڑا کرکٹ پھینکنا اگرچہ غلط ہے اور لوگوں کو شہری آداب سیکھنے چاہئیں، مگر گورنر ہاؤس کے دروازے اب کھلے رہنے چاہئے۔

سوشل میڈیا صارف زرلشت فیصل نے لکھا کہ اگرچہ لوگ کہتے رہے کہ نوآبادیاتی دور کی بنی عمارت میں گند ڈالنے والی عوام کو گھسنے نہ دیا جائے مگر معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کل گورنر ہاؤس داخل ہوئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہری آداب آ جائیں گے جب لوگ ان جگہوں کو اپنائیں گے۔

مگر گورنر ہاؤس کے عوام کے لئے کھولنے کی بحث یہاں سے جمہوریت اور آمریت کی لڑائی میں تبدیل ہو گئی۔

ایک ٹویٹر صارف آن لوکر نے لکھا کہ لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی کہ وزیراعظم ہاؤس، وزرائے اعلی اور گورنر ہاؤسز جمہوری بالادستی کی علامت ہیں۔ انہیں یونیورسٹی یا میوزیم بنانا عوام ہی کے خلاف ہے۔

اینکر اور تجزیہ نگار ضرار کھوڑو نے لکھا کہ یہ درست ہے کہ پاکستان میں ماضی میں جمہوری اداروں پر حملے کئے گئے مگر ہفتے میں ایک دن کے لئے گورنر ہاؤس عوام کے لئے کھولنا ان حملوں میں سے بالکل نہیں ہے۔

ضرار کھوڑو نے مزید ٹویٹ کیا کہ اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ گورنر ہاؤس کے معاملے پر اشرافیہ کی جانب سے کھلے تعصب کا اظہار ہو رہا ہے۔ یہ کہا جا رہے ہے کہ عوام اسے گندہ کر دیں گے۔ انہوں نے لکھا کہ اگر ایسا ہو بھی تو صفائی اور انتظام کا یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت ساری بحث میں شہری آداب کے بھیس میں اشرافیہ کی جانب سے عوام کے لئے تحقیر کا اظہار نظر آ رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG