رسائی کے لنکس

حکومت کی کفایت شعاری مہم: وزرا کو اب کن مراعات سے محروم ہونا پڑے گا؟


شہباز شریف نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں حکومت کی بچت اور کفایت شعاری مہم کا اعلان کیا۔
شہباز شریف نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں حکومت کی بچت اور کفایت شعاری مہم کا اعلان کیا۔

پاکستان اس وقت مشکل معاشی صورتِ حال سے دوچار ہے ایسے میں حکومت نے قومی خزانے پر بوجھ کو کم کرنے کے لیےحکومتی سطح پر کفایت شعاری مہم کا اعلان کیا ہے۔

حکومت پرامید ہے کہ سادگی اور کفایت شعاری مہم سے اسے 200 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے کون سے اخراجات ہیں جنہیں کم کرنے کے بعد حکومت قومی خزانے کی مطلوبہ رقم بچانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کی کفایت شعاری مہم کے تحت وزیروں، مشیروں یا معاون خصوصی کو ملکی و غیر ملکی دوروں کے لیے سرکاری خزانے سے بزنس کلاس کا ٹکٹ نہیں مل سکے گا اور وہ اکانومی کلاس سے سفر کرسکیں گے۔

اسی طرح وہ بیرون ملک فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بھی قیام نہیں کر سکیں گے اور انہیں اپنے ٹیلی فون، بجلی، گیس اور پانی کے بل بھی خود ادا کرنا ہوں گے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کی 85 رکنی کابینہ میں 34 وفاقی وزرا، سات وزرائے مملکت، چار مشیر اور 40 معاونین خصوصی ہیں۔

  • وزیرِ اعظم کی اعلان کردہ کفایت شعاری مہم کے تحت وفاقی کابینہ کے ارکان رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور کسی بھی قسم کی مراعات نہیں لیں گے۔
  • آئندہ دو برس یعنی 2025 تک پاکستان میں کوئی بھی نیا انتظامی یونٹ نہیں بنایا جائے گا۔ انتظامی یونٹ سے مراد تحصیل، ضلع، ڈویژن یا ممکنہ طور پر صوبہ بھی ہو سکتا ہے۔
  • کابینہ کے ارکان اور سرکاری افسران سے لگژری گاڑیاں واپس لی جائیں گی جنہیں نیلام کر دیا جائے گا۔
  • وزرا کو سیکیورٹی پروٹوکول کے لیے صرف ضرورت کے وقت ایک گاڑی فراہم کی جائے گی۔
  • آئندہ ڈیڑھ برس تک سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر بھی مکمل طور پر پابندی ہوگی۔ البتہ جون 2024 کے بعد اس پابندی کو ختم کر دیا جائے گا۔
  • کابینہ کے ارکان کو بیرونِ ملک دوروں کے دوران اپنے معاون عملے کو ساتھ لے جانے پر بھی پابندی ہو گی۔
  • حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ دیگر ممالک سے ملنے والے تحائف جن کی مالیت لگ بھگ 80 ہزار روپے یا 300 ڈالر ہو گی وہ حکومتی شخصیات رکھ سکیں گے لیکن اس سے زیادہ مہنگا تحفہ توشہ خانہ میں جمع ہوگا۔ توشہ خانہ کا ریکارڈ عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

کفایت شعاری مہم میں سرکاری امور کی انجام دہی میں بھی کچھ تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔

  • وفاقی حکومت کے ماتحت وزارتوں، ڈویژن، متعلقہ محکموں اور خود مختار اداروں یا اتھارٹیز کے اخراجات میں 15 فی صد کٹوتی کی جائے گی۔
  • بجلی اور گیس کی ممکنہ بچت کے لیے گرمیوں میں دفاتر صبح ساڑھے سات بجے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔
  • سرکاری دفاتر میں ایسے آلات لگانے کی بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جس سے بجلی کی کھپت کم ہو۔ حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ سرکاری دفاتر میں آلات کی تبدیلی پر آنے والے اخراجات کو کیسے پورا کیا جائے گا۔
  • حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کو پلاٹ دینے کے حوالے سے پالیسی واضح کر دی گئی ہے کہ اب کوئی بھی سرکاری اہلکار ایک سے زائد پلاٹوں کے حصول کا مستحق نہیں ہوگا۔ وزیرِ اعظم کے مطابق ماضی میں سرکاری ملازمین ایک سے زائد پلاٹ بھی لیتے رہے ہیں۔
  • حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بڑے سرکاری گھر بھی فروخت کر دیے جائیں گے۔ اس حوالے سے وزیرِ قانون کی سربراہی میں کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ وزیرِ اعظم کے مطابق انگریز کے زمانے میں کئی ایکڑ پر گھر بنائے گئے تھے جو سرکاری حکام کے زیرِ استعمال ہیں جنہیں اب نیلام کیا جائے گا۔
  • سرکاری تقاریب میں ون ڈش پالیسی پر عمل ہوگا۔ اگر چائے کا موقع ہوگا تو صرف چائے بسکٹ کے علاوہ کچھ پیش نہیں کیا جائے گا البتہ غیر ملکی مہمانوں کی آمد پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔
  • سرکاری افسران صرف انتہائی ضروری بیرونِ ملک دورے کر سکیں گے اور اس دوران وہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام نہیں کریں گے جب کہ ان کو بھی معاون عملہ ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
  • ایسے سرکاری افسران جو سرکاری خزانے سے کار الاؤنس لے رہے ہیں ان سے سرکاری گاڑی واپس لی جائے گی اور اس پالیسی پر سختی سے عمل ہوگا۔
  • سرکاری افسران سے سیکیورٹی کی گاڑیاں واپس لی جائیں گی اگر کسی کو پروٹیکشن کی ضرورت ہوگی تو وفاقی وزارتِ داخلہ سے منظوری کے بعد اسے سیکیورٹی کی گاڑی فراہم کی جائے گی۔
  • وفاقی کابینہ کا کوئی بھی رکن یا سرکاری افسر لگژری گاڑیاں استعمال نہیں کریں گے۔
  • سرکاری اجلاسوں پر اخراجات کم کرنے کے لیے ٹیلی کانفرنسنگ یا ورچوئل اجلاسوں کو زیادہ ترجیح دی جائے گی۔

وزیرِ اعظم نے جب بدھ کو پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ ان کی کابینہ کے تمام ارکان نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، تو اس موقع پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ پھر یہ تمام افراد گزارا کیسے کریں گے؟

اس پر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ جس طرح یہ بے چارے پہلے گزارا کرتے تھے۔ اگر یہ افراد اخلاص کے ساتھ خود پیشکش کر رہے ہیں تو اس کی تحسین کرنی چاہیے۔

حکومت نے امکان ظاہر کیا ہے کہ آئندہ بجٹ میں مزید اقدامات کیے جائیں گے۔

شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سمیت تمام عدالتوں، صوبائی وزرائے اعلیٰ سے درخواست کی ہے کہ اسی نوعیت کے اقدامات کیے جائیں کیوں کہ ان کے بقول یہ وقت کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG