بارکھان سے ایک ہی خاندان کے کئی افراد کو مبینہ طور پر حبسِ بیجا میں رکھنے کے واقعے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ پولیس نے مقتولہ قرار دی گئی خاتون گراں ناز اور ان کے بچوں کو بازیاب کرا لیا ہے تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ کنویں سے ملنے والی تین لاشیں کس کی ہیں۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر گراں ناز کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ دعویٰ کر رہی تھیں کہ وہ اپنے سات بچوں کے ہمراہ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید ہیں۔ بعدازاں منگل کو بارکھان کے قریب ایک کنویں سے خاتون سمیت تین افراد کی لاشیں ملی تھیں۔
لاشوں سے متعلق کہا جا رہا تھا کہ یہ گراں ناز اور ان کے دو بیٹوں کی ہیں۔ مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد نے تینوں لاشوں کے ہمراہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ہاؤس کے باہر دھرنا دے دیا تھا۔
کوئٹہ سے وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے مقتولہ قرار دی گئی خاتون گراں ناز اور ان کے بچوں کو بازیاب کرا لیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بازیاب کرائے گئے افراد سرکاری تحویل میں ہیں جنہیں قانونی کارروائی کے بعد خاندان کے حوالے کیا جائے گا۔
پولیس ذرائع کے مطابق مغویوں کی بازیابی کے لیے کوہلو،بارکھان، دکی سمیت مختلف علاقوں میں چھاپے مارے گئے۔
دوسری جانب اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ بارکھان کے کنویں سے ملنے والی لاشیں کن کی ہیں اور انہیں کس نے قتل کیا ہے۔
پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض کے مطابق کنویں سے ملنے والی خاتون کی لاش نوجوان لڑکی کی ہے جس کی عمر 17 سے 18 برس ہے اور اسے جنسی زیادتی اور تشدد کے بعد سر پر تین گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق مقتولہ کی شناخت چھپانے کے لیے اس کے چہرے اور گردن پر تیزاب بھی پھینکا گیا تھا جب کہ دیگر دو نوجوانوں کو بھی تشدد کے بعد قتل کیا گیا ہے۔
بدھ کی شب میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ نے کہا کہ تینوں لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے لیے گئے ہیں جنہیں لاہور بھیجا جائے گا۔
نتائج آنے میں کچھ دن لگ سکتے ہیں جب کہ دیگر دونوں لاشوں کا پوسٹ مارٹم بھی مکمل کرلیا گیا ہے۔ دونوں نوجوانوں کو بھی تشدد کے بعد قتل کیا گیا ہے۔
پولیس نے کنویں سے ملنے والی تین لاشیں ملنے کے بعد قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا تھا جب کہ صوبائی وزیرِ مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران اس معاملے پر پہلے ہی گرفتاری دے چکے ہیں۔
عبدالرحمان کھیتران نے کنویں سے ملنے والی لاشوں سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ مری اور ان کے قبیلے کو دست و گریبان کرانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ماضی میں بھی اس طرح کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔