اطلاعات ہیں کہ ترکی بحیرہ روم میں تیل اور قدرتی گیس کی تلاش کے لئے کھدائی کا منصوبہ بنا رہا ہے جس پر یونان نے، جو اس علاقے پر ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے، سخت احتجاج کیا ہے۔
تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ یہ معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان، جو نیٹو کے رکن بھی ہیں، محاذ آرائی کا سبب بن سکتا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ترکی بحیرہ روم کے ان علاقوں میں جنھیں یونان اپنا خیال کرتا ہے، تیل اور گیس کی تلاش کے اپنے منصوبوں کو وسعت دینا چاہتا ہے۔
یونان کی حکومت نے انتباہ کیا ہے کہ اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔ یونان کے وزیر خارجہ نیکوس ڈنڈیاس نے ایک مختصر لیکن سخت بیان میں کہا ہے کہ ان کا ملک، بقول ان کے، ترکی کی اشتعال انگزیزی کا جواب دینے کے لئے تیار ہے اور اگر انقرہ نے اس سمندری علاقے میں جسے یونان اپنا خیال کرتا ہے، تیل اور گیس کی تلاش کا کام شروع کیا تو اس کا بھرپور ردعمل ہوگا۔
بعد میں یونانی وزیر خارجہ نے یونان کے لئے ترکی کے سفیر سے ملاقات کی اور اپنی سخت مایوسی کا اظہار کیا۔ لیکن، ساتھ ہی انھوں نے وضاحت بھی طلب کی۔
یہ سفارتی محاذ آرائی یونان اور ترکی کے ذرائع ابلاغ میں ان انکشافات کے پس منظر میں سامنے آئی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ ترکی کی سرکاری پیڑولیم کمپنی کو صدر رجب اردوان کی حکومت کی جانب سے مشرقی بحیرہ روم کے 24 مقامات پر تیل اور گیس کی تلاش کا لائسنس دیا گیا ہے۔
خبروں میں کہا گیا ہے کہ ڈرلنگ کے منصوبوں کے لئے نظام الاوقات تو نہیں دیا گیا لیکن کم سے کم سات مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جو یونان کے بعض بڑے جزائر کے ساحلوں سے پرے واقع ہیں۔
تجزیہ کار اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ یہ سفارتی کشیدگی ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آرہی ہے جب یونان پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے یونان کی سیاحت کی صنعت اپنے آپ کو سنبھالنے کی جدوجہد کر رہی ہے اور حکومت اس کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوشش میں مصروف ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کرونا کے نتیجے میں بندشوں کی بنا پر تمام دوسرے ملکوں کی طرح یونان کو بھی سخت دھچکا لگا ہے، جب کہ سیاحت اس کی آمدن کا ایک خاص ذریعہ ہے۔
ماہرین اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ دونوں ملک، جو نیٹو کے اتحادی ہیں، دونوں ہی تیل اور معدنیات کی دولت سے مالامال بحیرہ ایجین میں فضائی اور سمندری حقوق کے لئے ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں بھی دونوں کے درمیان تعلقات کو اس وقت دھچکا لگا جب ترکی نے لیبیا کے ساتھ بظاہر ایک متنازعہ سمجھوتہ طے کیا جس کے تحت ترکی سیکڑوں میل کے علاقے میں بحیرہ روم کی تہ میں تیل و گیس کی تلاش کا کام کرسکے گا۔ یہ علاقہ اس کے جنوب مغربی ساحل سے لیکر لیبیا کے شمالی سرے تک پھیلا ہوا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، یونان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے متعدد جزائر اس علاقے میں واقع ہیں، اور تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ اگر یونان نے یہ محسوس کیا کہ اس کی علاقائی خود مختاری کی کسی طور خلاف ورزی ہورہی ہے تو اس کے نتجے میں مسلح تصادم بھی ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ترکی کے صدر اردوان نے اس اہم علاقے میں ترکی کے مفادات کے اعادہ کا عزم کررکھا ہے۔ یاد رہے کہ حالیہ برسوں میں مشرقی بحیرہ روم میں قدرتی گیس کے خاصے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔