کراچی کے بہت سے ندی نالے بھی انسانی موت کا بہانا بنے ہوئے ہیں۔نیوکراچی جیسی غریب بستی سے شروع ہوکر لیاقت آباد اور گلشن اقبال کی متوسط طبقے کی رہائشی آبادی سے ہوتے ہوئے کلفٹن جیسے پوش ایریا تک ہر جگہ ایسے درجنوں نالے موجود ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہیں اسے ’گجر نالے ‘ کا نام دیا گیاہے تو کہیں یہ المونیم کی فوائل پیکنگ میں ’نہر خیام‘ کے نام سے ’دستیاب‘ ہے۔
شہر کے یہ نالے باقاعدہ’ بکے’ ہوئے ہوئے ہیں ۔ بے شک ان پر ناجائز تجاوزات کی بھرمار ہے لیکن آج بھی یہ عام قطعہ اراضی کی طرح خریدے اور بیچے جارہے ہیں۔
صرف گجر نالے کی بات کریں تو شہر میں دور دور تک پھیلے اور چند بڑے نالوں میں سے ایک ہے ۔ ڈپٹی کمشنر سینٹرل آفس نے وائس آف امریکہ کو نالے سے متعلق معلومات میں بتایا کہ نالے کی لمبائی مجموعی طور پر تیرہ کلو میٹر ہے ۔ فیڈرل بی ایریا، لیاقت آباد، بفرزون اور نارتھ ناظم آباد جیسے کئی بڑے اور گنجان علاقے اس کی ’گزرگاہ ‘ہیں۔
ڈپٹی کمشنر سینٹرل فرید الدین مصطفیٰ کے مطابق شہر میں برسات اور خاص کر موسلادھار بارشوں کے زمانے میں گجر نالہ زرا سی دیر میں ابلنے لگتا ہے ۔ اس کا گندا پانی رہائشی مکانات میں داخل ہوجاتا ہے ، کئی علاقے بری طرح زیر آب آجاتے ہیں ۔ ماضی میں کئی مرتبہ یہ نالہ کئی قیمتی انسانی جانیں لے چکا ہے جبکہ کروڑوں کا مالی نقصان بھی ہوچکا ہے۔
نالے کے بھر جانے کی بنیادی وجہ اس پر آباد تیس ہزار غیر قانونی تجاوزات ہیں۔ ڈی سی آفس کے حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ناجائز تجاوزات گندے پانی کی روانی میں رکاوٹ کا بڑا ذریعہ ہیں۔ تجاوزات میں اس کے کنارے آباد مختلف کارخانے ، بھینسوں کے متعدد باڑے، کچے مکانات، دکانیں اور گودام ہیں جن سے نکلا ہوا کچرا نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے اور اس کی ہفتوں اور مہینوں صفائی نہیں ہوتی۔
گزشتہ ہفتے بفرزون کے قریب نالے کی ہیوی مشینری سے صفائی کے دوران کرول لگنے سے ایک مکان زمین بوس ہوگیا جس میں آباد پانچ افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ڈوب گئے تاہم تین کو ریسکیو ٹیموں نے بچا لیا جبکہ ایک خاتون اور بچہ لاپتہ ہوگئے۔ کئی دن تک ان کی لاش پانی میں تلاش کی جاتی رہی لیکن کوئی سرا ہاتھ نہیں آسکا۔
یہ واقعہ نیا نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی ایسے ہی کئی حادثات میں درجنوں بچے، خواتین اور مرد موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لئے ڈی سی آفس سینٹرل کا منصوبہ ہے کہ نالے کو 60فٹ تک چوڑا کردیا جائے جس کے لئے وہاں موجود ناجائز تجاوزات ختم کرنا ہوں گی۔
ہفتے کو محکمہ انسداد تجاوزات کی جانب سے د س ہزار مکانات کو پیر تک خالی کرنے کی مہلت دی گئی ہے ۔ یہ مکانات ممکنہ طور پر تجاوزات کے خلاف جاری آریشن کی زد میں آئیں گے ۔ اتنے زیادہ مکانات کا انہدام کسی ’گرینڈ آپریشن‘ سے کم نہیں ۔ اس متوقع آپریشن کو پرامن اور امن و امان کی صورتحال کو بگڑنے سے روکنے کے لئے سیکورٹی کے انتظامات سخت کئے جارہے ہیں۔
گجر نالے کے ساتھ ساتھ شہر میں کراچی میں متوقع موسلادھار بارشوں کے پیش نظر پچھلے ایک ہفتے سے دیگرندی نالوں کی صفائی کا کام بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے جبکہ نالوں اور ان کے اطراف بنی ناجائز تجاوزات کو منہدم کئے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔
صفائی کے ناقص نظام کے سبب دوہرا نقصان ہورہا ہے ایک جانب کھلے نالوں سے کچرا نکال نکال کر وہیں ڈالا جارہا ہے جس سے مکھی مچھرو دیگر حشرات الارض اور تعفن میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے تو دوسری جانب یہ صفائی کچے مکانات کے زمین بوس ہونے اور انسانی جانوں کے ذیاں کا بھی سبب بن رہا ہے ۔
کراچی میں اچانک صفائی سے متعلق منصوبوں میں تیزی کا سبب یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نےکمشنر کراچی کو شہر بھر سے سارا کچرا صاف کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے۔ صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو اس مہم میں پیش پیش ہیں جبکہ کمشنر کراچی، ایم ڈی واٹر بورڈ اور ضلعی ایڈمنسٹریٹرز بھی ان کے ہمراہ ہیں ۔
صوبائی وزیر بلدیات جام خان شوروکا کہنا ہے کہ کراچی میں ہر روز 12 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے چند ہزارٹن کو ہی ٹھکانے لگایا جاتا ہے جس کے باعث شہر میں ہر جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ، انہیں صاف کرنے میں کچھ ہفتوں یا مہینوں کا وقت لگ سکتا ہے تب تک کے لئے ہمیں ہر شہری سے تعاون درکار ہے۔