گوانتاناموبے کے امریکی حراستی مرکز میں نمبروں سے پہچانے جانے والے عمر رسیدہ قیدی بیڑیاں پہنے ملاقات گاہ میں پہنچے۔سال 2002 میں حراستی مرکز کھلنے کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ ایک امریکی صدر اقوام متحدہ کی غیر جانبدار تفتیش کار کو اجازت دے رہا تھا کہ وہ بیس سال سے وہاں قید افراد سے ملاقات کر سکے۔ قیدیو ں نے اس سال فروری میں اقوام متحدہ کی تفتیش کار فیو نوآلہ نی آؤ لین ( Fionnuala Ní Aoláin) کو قید میں گزرے دنوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔انہوں نے نی آؤ لین کو یہ بھی بتایا کہ انہیں 'آنے میں بہت دیر ہوگئی'۔
نی آؤ لین نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ انھیں وہاں پہنچنے میں تاخیر ہوئی کیونکہ 9/11 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد گوانتانامو بے کے حراستی مرکز میں 780مسلمان مردوں کو قید کیا گیا تھا اور آج ان میں سے صرف تیس باقی ہیں۔
اقوام متحدہ نے برسوں کوشش کی کہ گوانتانامو بے حراستی مرکز میں آزاد تفتیش کار بھیج سکے لیکن امریکہ کے سابق صدور جارج ڈبلیو بش، براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اسے مسترد کر دیا تھا۔اقوام متحدہ کی تفتیش کار نے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی تعریف کی کہ انہوں نے اس حراستی مرکز میں 'تنقیدی آوازوں' کو داخلے کی اجازت دی۔ انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ اقوام متحدہ کے خصوصی تفتیش کاروں کو روکنے والی دوسری حکومتیں بھی بائیڈن انتظامیہ کی مثال پر عمل کریں گی۔
تاہم قیدیوں نےان کے ساتھ بات کی اور بتایا کہ ان کا اپنے خاندانوں کے ساتھ بہت کم رابطہ رہا۔ انہوں نے صحت کے مسائل کا ذکر کیا، بیس سال کی قید کے نفسیاتی اور جسمانی اثرات پر بات کی اور یہ بھی بتایا کہ انہیں اب بھی اپنے اہلخانہ سے دوبارہ جاملنے کی کتنی امید ہے ۔
بیلفاسٹ میں پیدا ہونے والی قانون کی پروفیسر نی آؤ لین نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے انہیں ہرکسی سے بات کرنے کی اجازت دی تھی ،اور ان کے ساتھ ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر بات کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا تھا۔ تاہم انہیں لگتا ہے کہ اس بات کا ایک مشترکہ فہم موجود تھا کہ، اب اس وقت جبکہ وہ ان کی جیل کی زندگی بہتر بنانے کے لئے سفارشات کر سکتی ہیں،اور جن پر شائد کبھی کسی حد تک عمل بھی ہو جائے ، تاہم 'ان افراد کی زندگی کا ایک بڑا حصہ ایک ایسی جیل میں گزرا ہے ، جہاں مجھ جیسے لوگوں اور اقوام متحدہ کا کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا'۔
نی آؤ لین یونیورسٹی آف مینیسوٹا اور بیلفاسٹ کی کوئنز یونیورسٹی میں قانون کی پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تفتیش کار کے طور پر انہوں نے چھ برسوں کے دوران متعدد کڑی سکیورٹی والی جیلوں کا دورہ کیا ہے جن میں سے کچھ دہشت گردی کاارتکاب کرنے والوں اورسنگین جرائم کرنے والوں کے لیے بنائی گئی ہیں لیکن ’’حقیقت میں دنیا بھر میں ایسے کوئی لوگ نہیں جو ان حالات میں جیلوں میں لائےگئے ہوں جن حالات میں گوانتانامو بےکیوبا کے قیدیوں کو لایا گیا اور سر حدوں کے پار رکھا گیا ۔
نی آؤ لین نے چھبیس جون کو جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا کہ اگرچہ 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملے ’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ تھے لیکن گوانتانامو کے قیدیوں کے ساتھ سلوک 'غیر منصفانہ' تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان میں ایسے افراد کی اکثریت تھی جن کا دہشت گردانہ حملوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ابھی تک وہاں موجود مرد نفسیاتی اور جسمانی ٹراما کا شکار ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے اقوام متحدہ کی تفتیش کار کی رپورٹ ہی سے منسلک اپنے جوابی بیان میں کہا ہے کہ نی آؤ لین کی تفتیش کے نتائج ’’صرف ان کے اپنے ہیں‘‘ اور اگرچہ امریکہ رپورٹ میں شامل کئے گئے' بہت سےدعووں کے حقیقی اور قانونی پہلووں سے بالکل بھی اتفاق نہیں کرتا '، تاہم ان کی سفارشات کا بغور جائزہ لے گا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ پچھلے ہفتے کے انٹرویو میں نی آؤ لین نے اپنے ذاتی مشاہدات کے بارے میں بات کی۔انہوں نے قیدیوں کی شناخت نام کی بجائے نمبر سے کرنے کے طریق کار کو ’’غیر انسانی‘‘ قرار دیا۔
نی آؤ لین نے کہا کہ وہ خاص طور پر تین قیدیوں کے بارے میں فکر مند ہیں جن پر کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی، 'وہ ایک قانونی خلا میں لٹک رہے ہیں'، جوبین الاقوامی قانون سے متصادم ہے۔ سولہ افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن کوئی ایسا ملک نہیں جو انہیں رکھنے کے لیے تیار ہو جبکہ گیارہ افراد کے کیس اب بھی امریکی فوجی کمیشن کے سامنے زیر غور ہیں۔
نی آؤ لین نے قیدیوں کو ملاقات کے وقت بیڑیوں کے ساتھ لانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے مرتکب افراد کے لیے بھی یہ کوئی معیاری طریقہ کار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوانتاناموبے میں ان کے خیال میں اس طریق کار کو ممنوع قرار دیا جانا چاہئیے۔
نی آؤ لین کہتی ہیں کہ بھوک ہڑتال کرنے والوں کو زبردستی کھانا کھلانا بھی وہاں کا ایک طریق کار رہا ہے۔ پھر ایسے افراد بھی ہیں جنھیں بیس برس بغیر کسی مقدمے کے وہاں رکھا گیا ہے ۔ وہ اپنے خاندان کے افراد سے بھی ملاقات نہیں کر پائے اور بیرونی دنیا سے بھی ان کا کوئی رابطہ نہ تھا۔ مختلف پابندیاں بہت سے قیدیوں کے لیے نفسیاتی پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔
نی آؤ لین نے اپنی رپورٹ مرتب کرنے کے لیے 9/11 کے متاثرین، زندہ بچ جانے والوں اور ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کے انٹرویو بھی کئے ہیں اور گوانتانامو سے رہا ہونے والے ان سات سو اکتالیس مردوں میں سے کچھ سے ملاقات کی جن میں سے تقریباً ایک سو پچاس اب انتیس ممالک میں دوبارہ آباد ہوئے ہیں ۔ باقی اپنے گھر واپس آ گئےجبکہ تیس افراد مر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گوانتاناموبے میں اب بھی موجود افراد اور رہائی پانے والوں کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ تشددکے بعد کی بحالی کا عمل ہے اور امریکہ اس عمل میں ایک رہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔
نی آؤ لین نے چھبیس جون کو صدر بائیڈن کے ’’غیر معمولی بیان‘‘ کا خیرمقدم کیا۔ یہ دن تشدد کے متاثرین کی حمایت کا بین الاقوامی دن ہے اور صدر بائیڈن نے ’’ہر قسم کے غیر انسانی سلوک کے خلاف امریکی مخالفت اور تشدد کے خاتمے اور تشدد سے بچ جانے والوں کی صحت یابی اور انصاف کی تلاش میں ان کی مدد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
‘‘نی آؤ لین کہتی ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ازالہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد کے تمام متاثرین کے لیے بحالی کاعمل بہت اہم ہے۔
نی آؤ لین کی رپورٹ میں پیش کی جانے والی سفارشات میں تشددکے بعد بحالی کے عمل اور اضافی تعلیم وتربیت فراہم کرنا شامل ہے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جن کی رہائی کے لئے منظوری دی جا چکی ہے۔
نی آؤ لین نے تمام قیدیوں کے لیے اجتماعی کھانوں اور اجتماعی دعا کو بہت اہم قرار دیا، جس پر امریکہ زور دیتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ زیر حراست افراد کو کچھ مراعات حاصل ہیں ۔ وہ ٹیلی ویژن دیکھنے اور کتابیں پڑھنے کے اہل ہیں اور وہاں زبان سکھانے کی کلاسیں ہیں اور کمپیوٹر اور آرٹ کے بارے میں سیکھنے کے بھی کچھ مواقع ہیں۔
نی آؤ لین نے کہا کہ وہ بےحد مشکور ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ نے حال میں رہائی پانے والے چند قیدیوں کو اپنا وہ تمام آرٹ ورک اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی، جو وہ لے جا سکتے تھے۔
نی آؤ لین کہتی ہیں کہ یہ افرادکسی دن تو اپنی دنیا میں واپس جائیں گے ۔ ان میں سے بہت سے افرادکو نوجوانی میں حراست میں لیا گیا تھا۔ اب وہ معمر ہوچکے ہیں اور انہیں عملی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے لئے بہت کچھ دوبارہ سیکھنا ہوگا ۔ کئی قیدیوں کو اس بات کی پریشانی ہے کہ وہ دوبارہ اپنے خاندانوں کی ذمہ داری کیسے اٹھائیں گے اور ان کی کفالت کیسے کر پائیں گے ۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)