موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے عالمگیر سطح پر کوششیں ہو رہی ہیں اور توانائی کے متبادل طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں اور ان کو اپنایا جا رہا ہے۔ اس صورتحال سے با الخصوص خلیجی عرب ممالک شش و پنج میں گرفتار ہیں، کیوں کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ پوری دنیا میں متبادل ذرائع کا مطلب ہے کہ تیل اور گیس کی جگہ متبادل وسائل کا فروغ، جبکہ یہی تیل اور گیس عرب خلیجی ممالک کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن ہے۔
کاربن گیسوں کے اخراج میں کٹوتی سے ان ممالک کی معشیت کی بنیادیں ہل سکتی ہیں۔ دوسری طرف پوری دنیا میں جس طرح درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اس کے اثرات سے سعودی عرب سمیت سبھی خلیجی ممالک شدید متاثر ہوں رہے ہیں۔
اس وقت تک چھ خلیجی ریاستیں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارارت، قطر، کویت، بحرین اور عمان کی بیشتر کمائی تیل و گیس سے ہوتی ہے، بھارت اور چین کو اگلے دو عشروں سے زیادہ عرصے تک ان ملکوں کے انہی قدرتی وسائل کی طلب رہے گی۔
عالمی تیل اور گیس کے ماہر اور 'انرجی کنگڈمز' کے مصنف جم کرانے کا کہنا ہے کہ موسمیاتی اقدامات مطلق العنان بادشاہت کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ان ملکوں کو موسمیاتی تغیر پر قابو پانے کے اقدامات کے ساتھ اپنی تیل کی صنعت کو بھی محفوظ رکھنا ہوگا۔ اس میں توازن قائم رکھنا بڑے جوکھم کا کام ہے۔
اس کے ساتھ اس ماہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے گیسوں کے اخراج کو صفر درجے تک لانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ مگر اپنے ملکوں میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی کٹوتی کے اعلان کے ساتھ فوسل ایندھن کی بیرونی ملکوں کو برآمد بھی جاری رکھیں گے۔
دنیا میں تیل کی طلب کا دسواں حصّہ سعودی عرب پوری کرتا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ایک فورم کی پہلی بار میزبانی کرتے ہوئے ولی عہد محمد بن سلمان نے دو ہزار ساٹھ کا ٹارگٹ دیا ہے۔ ایک ایسے ملک کی جانب سے یہ ایک اہم اعلان ہے جس کے پاس تیل کے 265 بلین بیرل کے ذخائر ہیں، جن کی مالیت آج کے نرخوں کے مطابق ساڑھے بائیس ٹریلین کے لگ بھگ بنتی ہے۔ خلیج کی بادشاہتیں تیل سے حاصل ہونے والے محصولات سے نہ ملک چلاتی ہیں بلکہ بیرونی دنیا میں اپنا اثر رسوخ بڑھاتی ہیں۔
رائس یونی ورسٹی کے بیکر انسٹی ٹیوٹ برائے پبلک پالیسی کے فیلو کرین کہتے ہیں کہ اگر تیل اور گیس سے حاصل ہونے والے محصولات کا سہارا نہ ہوتا تو ان ملکوں میں زیادہ جمہوریت آتی۔ بہرحال اب یہ ممالک ایک طرف صاف ستھری توانائی کے منصوبوں میں کثیر سرمایہ کاری کریں گے تو دوسری طرف اپنی تیل اور گیس کی برآمدات بھی جاری رکھیں گے۔
سعودی عرب کے دارا لحکومت ریاض میں ہونے والے اس فورم میں موسمیات کے متعلق امریکہ کے خصوصی نمائندے جان کیری بھی شرکت کی۔ انہوں نے اس موقعے پر کہا کہ موسمیاتی تغیر کے خلاف اقدامات دنیا کے لیے ایک ایسی مارکٹ کے دروازے کھولے گی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اس کام کو پورا کیا تو اس کرہ ارض پر صنعتی انقلاب کے بعد یہ سب سے بڑی تبدیلی ہوگی
عرب خلیجی ریاستیں در پردہ اور کھلے عام کاربن کے اخراج کو کم کرنے والی ٹیکنالوجیز کے فروغ کی وکالت کرتی ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ انتباہ بھی کرتی ہیں کہ جلد بازی میں سب کچھ نہ بدلا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا کی غریب آبادی توانائی تک رسائی حاصل نہ کر سکے گی۔
دریں اثنا، ان ملکوں میں کام کرنے والی تیل کی بڑی کمپنیاں اپنے نام یا برانڈ بدل رہی ہیں اور کاربن کے اخراج کو کم کرنے والی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کو بڑھا رہی ہیں۔
قطر پیٹرولیم کا اب قطر انرجی نام ہوگا اور یہ اخراج کو کم کرنے کی کوششوں کے ساتھ کھاد، پلاسٹک، ربڑ اور دیگر پولیمرز میں استعمال ہونے والی پیٹروکیمکل مصنوعات میں سرمایہ کاری کو بڑھا رہی ہے۔