پشاور ۔۔۔۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر عسکریت پسندوں کے حملے میں دو پولیس اہل کاروں سمیت تین افراد ہلاک، جب کہ درجنوں قیدی فرار ہوگئے ہیں۔ ساتھ ہی، اہل کاروں کی جوابی فائرنگ میں دو دہشت گرد ہلاک بتائے جاتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، عسکریت پسندوں نے جیل کے احاطے میں داخل ہوکر دہشت گردی میں ملوث اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر فرار کرایا۔ حکام نے بتایا ہے کہ حملے کے فوراً بعد، ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے پولیس اہل کاروں نے جیل کا محاصرہ کیا اور عسکریت پسندوں کو فرار کرانے کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔
جیل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پولیس چوکی میں موجود اہل کاروں نے فرار ہونے والے چھ قیدیوں کو دوبارہ حراست میں لے لیا ہے۔
حکام نے بتایا ہے کہ عسکریت پسندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ تقریباً ساٹھے تین گھنٹے تک جاری رہا۔
پولیس حکام نے شدت پسندوں کے حملے میں دو اہل کاروں سمیت تین افراد ہلاک ہونے اور چھ کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے، جب کہ حکام کے مطابق، جیل کے قریب دو عسکریت پسندوں کی لاشیں بھی ملی ہیں۔
پولیس حکام نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے جیل کے قریب ایک اسپتال اور گھر میں داخل ہو کو یہاں موجود افراد کو یرغمال بنایا ہے۔
انتظامی عہدے داروں نے شہریوں کو گھروں سے نہ نکلنے کی ہدایت کی ہے، جب کہ علاقے میں گھر گھر کی تلاشی بھی شروع کردی گئی ہے۔
مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ منگل کی صبح سحری کے وقت سکیورٹی فورسز کے اہل کار جیل کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ عسکریت پسندوں نے جیل کے بیشتر حصوں کو آگ لگا کر اور بارودی مواد سے تباہ کردیا ہے، جب کہ جیل کے احاطے میں سکیورٹی فورسز کے اہل کاروں اور مزاحمت کرنے والے قیدیوں کی لاشوں کے ملنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کے ایک ترجمان کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، اور دعویٰ کیا ہے کہ جیل میں 300قیدیوں کو چھڑا کر لے جایا گیا ہے۔
دو روز قبل، ڈیرہ اسمائیل خان جیل میں کالعدم عسکریت پسند تنظیم سے منسلک قیدیوں نے سکیورٹی اہل کاروں اور انتظامی افسران پر حملہ کیا تھا۔ تاہم، بعد میں پولیس حکام نے حالات پر قابو پالیا تھا۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے تقریباً 100کلومیٹر دور بنوں شہر میں واقع جیل پر عسکریت پسندوں نے پچھلے سال 15 اپریل کو حملہ کرکے 380سے زائد قیدیوں کو چھڑا کر فرار کروا لیا تھا۔ فرار ہونے والے قیدیوں میں 150 کے لگ بھگ خطرناک دہشت گرد بھی شامل تھے، جن میں سابق صدر پرویز مشرف پر ہونے والے ناکام حملے میں سزائے موت کے قیدی اور پاکستان ایئر فورس کے سابق ملازم سرِ فہرست تھے۔
اطلاعات کے مطابق، عسکریت پسندوں نے جیل کے احاطے میں داخل ہوکر دہشت گردی میں ملوث اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر فرار کرایا۔ حکام نے بتایا ہے کہ حملے کے فوراً بعد، ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے پولیس اہل کاروں نے جیل کا محاصرہ کیا اور عسکریت پسندوں کو فرار کرانے کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔
جیل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پولیس چوکی میں موجود اہل کاروں نے فرار ہونے والے چھ قیدیوں کو دوبارہ حراست میں لے لیا ہے۔
حکام نے بتایا ہے کہ عسکریت پسندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ تقریباً ساٹھے تین گھنٹے تک جاری رہا۔
پولیس حکام نے شدت پسندوں کے حملے میں دو اہل کاروں سمیت تین افراد ہلاک ہونے اور چھ کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے، جب کہ حکام کے مطابق، جیل کے قریب دو عسکریت پسندوں کی لاشیں بھی ملی ہیں۔
پولیس حکام نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے جیل کے قریب ایک اسپتال اور گھر میں داخل ہو کو یہاں موجود افراد کو یرغمال بنایا ہے۔
انتظامی عہدے داروں نے شہریوں کو گھروں سے نہ نکلنے کی ہدایت کی ہے، جب کہ علاقے میں گھر گھر کی تلاشی بھی شروع کردی گئی ہے۔
مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ منگل کی صبح سحری کے وقت سکیورٹی فورسز کے اہل کار جیل کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ عسکریت پسندوں نے جیل کے بیشتر حصوں کو آگ لگا کر اور بارودی مواد سے تباہ کردیا ہے، جب کہ جیل کے احاطے میں سکیورٹی فورسز کے اہل کاروں اور مزاحمت کرنے والے قیدیوں کی لاشوں کے ملنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کے ایک ترجمان کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، اور دعویٰ کیا ہے کہ جیل میں 300قیدیوں کو چھڑا کر لے جایا گیا ہے۔
دو روز قبل، ڈیرہ اسمائیل خان جیل میں کالعدم عسکریت پسند تنظیم سے منسلک قیدیوں نے سکیورٹی اہل کاروں اور انتظامی افسران پر حملہ کیا تھا۔ تاہم، بعد میں پولیس حکام نے حالات پر قابو پالیا تھا۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے تقریباً 100کلومیٹر دور بنوں شہر میں واقع جیل پر عسکریت پسندوں نے پچھلے سال 15 اپریل کو حملہ کرکے 380سے زائد قیدیوں کو چھڑا کر فرار کروا لیا تھا۔ فرار ہونے والے قیدیوں میں 150 کے لگ بھگ خطرناک دہشت گرد بھی شامل تھے، جن میں سابق صدر پرویز مشرف پر ہونے والے ناکام حملے میں سزائے موت کے قیدی اور پاکستان ایئر فورس کے سابق ملازم سرِ فہرست تھے۔