واشنگٹن —
پچھلے ماہ امریکی ریاست کنیٹی کٹ کے ایک سکول میں ہونے والی فائرنگ سے چھبیس بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سانحے نے امریکہ میں اُس بحث کو دوبارہ جنم دیا ہے جس میں امریکہ میں پرتشدد وڈیو گیمز اور ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے رواج کو روکنے یا اس پر پابندی عائد کرنے کی بات کی جاتی رہی ہے۔ دوسری جانب ماہرین کہتے ہیں کہ سکول میں فائرنگ جیسے افسوسناک واقعے کے بعد ایسا رد ِ عمل سامنے آنا فطری ہے۔
ریاست کنیٹی کٹ کی پولیس کے مطابق حملہ آور ایڈم لینزا ایک بیس سالہ نوجوان تھا، جس کے پاس ایک جدید جزوی خودکار رائفل تھی۔ ایڈم نے اسی رائفل کی مدد سے سکول میں ٹیچرز اور بچوں پر فائرنگ کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس حملے سے پہلے ایڈم بہت دیر تک اپنے کمپیوٹر پر پُرتشدد آن لائن گیمز کھیلتا رہا تھا۔
ریاست کنیٹی کٹ میں فائرنگ کے اس واقعے کے ایک ہفتے بعد، امریکہ کی قومی رائفل ایسوسی ایشن کے وائس پریذیڈنٹ وین لا پئیر نے اس اعتراض کو یکسر مسترد کر دیا تھا کہ امریکہ میں ہتھیاروں کی فروخت اور پھیلاؤ کی وجہ سے اس نوعیت کے سانحات پیش آتے ہیں۔ بلکہ وین لا پئیر نے ان واقعات کا ذمہ دار وڈیو گیم انڈسٹری کو ٹھہرایا تھا جو ان کے بقول، ’’اپنے ہی لوگوں کے خلاف وڈیو گیمز کی صورت میں تشدد کا بیچ بو رہی ہے اور اس سے پیسے کما رہی ہے‘‘۔
حال ہی میں، ریاست کنیٹی کٹ میں ایک تنظیم نے بچوں کی ایسی پُر تشدد وڈیو گیمز کو اکٹھا کرکے ضائع کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جو اُن کے مطابق بچوں میں غیر صحتمندانہ رجحانات کو فروغ دیتی ہیں۔ لیکن ان کی اس رائے سے سبھی لوگ متفق دکھائی نہیں دیتے۔
کیلی فورنیا کے ایک غیر سرکاری تعلیمی ادارے کے سربراہ کیمی اکھاوان کا کہنا ہے، ’’اس سے پہلے بھی تو چیزیں تھیں۔ جیسا کہ کتابیں، کامک بکس، ٹیلی ویژن، ریڈیو وغیرہ ۔۔۔ ہماری ثقافت میں شامل بہت سی چیزیں تشدد کو فروغ دے رہی تھیں۔ ہم ایک تشدد پسند معاشرے میں رہتے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں اس کا مکمل ذمہ دار وڈیو گیمز کو ٹھہرانا چاہیئے؟ ہمیں اس پر بحث کرنا ہوگی‘‘۔
کیمی اکھاوان کہتے ہیں کہ وڈیو گیمز کی وجہ سے تشدد حقیقت سے قریب تر ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اصل اور تخیل کا فرق مٹ گیا ہے۔ گو کہ ان کے مطابق لوگوں کی اکثریت اس باریک فرق کو سمجھتی ہے۔ کیمی اکھاوان کا کہنا ہے کہ، ’’امریکہ میں بارہ سے سترہ سال کی عمر کے بچوں میں سے 97٪ بچے وڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔ جبکہ 1995 کے بعد کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ میں بچوں میں جرائم کی شرح میں بتدریج کمی دیکھی گئی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ 1995 سے اب تک وڈیو گیم انڈسٹری کئی گنا زیادہ فروغ پا چکی ہے‘‘۔
ریاست ٹیکساس کی اے اینڈ ایم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سائکولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کرس فرگوسن کے مطابق معاشرے میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں تمام حملہ آور وڈیو گیمز کھیلنے کا رجحان نہیں رکھتے تھے۔ فرگوسن کا کہنا ہے کہ، ’’زیادہ تر حملہ آور سماج کے خلاف ہوتے ہیں یا پھر کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ جس قسم کا تشدد ٹی وی پر یا فلموں میں دکھایا جاتا ہے اس سے اُن پر ایسا جذباتی اثر نہیں پڑتا کہ وہ معاشرے میں تشدد کے فروغ کا سبب بن سکیں۔‘‘
فرگوسن کے مطابق معاشرے میں دو مختلف طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔۔۔ ایسے لوگ جنہیں وڈیو گیمز پسند ہیں یا پھر ایسے لوگ جنہیں ہتھیار پسند ہیں۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ کی قومی رائفل ایسو سی ایشن ہتھیاروں کی بجائے وڈیو گیمز کی بات کرکے لوگوں کا دھیان بٹانا چاہتی ہے۔
امریکہ میں شہریوں کے پاس ہتھیار رکھنے کی حمایت کرنے والی ایک تنظیم کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر ڈیو ورک مین کا کہنا ہے کہ، ’’ریاست کنیٹی کٹ میں ایک شخص کی جانب سے کیے گئے عمل کی پاداش میں آپ معاشرے کے ان تمام شہریوں سے ہتھیار نہیں چھین سکتے جو امن پسند ہیں اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ہی اپنے پاس ہتھیار رکھتے ہیں۔‘‘۔
ریاست کنیٹی کٹ کی پولیس کے مطابق حملہ آور ایڈم لینزا ایک بیس سالہ نوجوان تھا، جس کے پاس ایک جدید جزوی خودکار رائفل تھی۔ ایڈم نے اسی رائفل کی مدد سے سکول میں ٹیچرز اور بچوں پر فائرنگ کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس حملے سے پہلے ایڈم بہت دیر تک اپنے کمپیوٹر پر پُرتشدد آن لائن گیمز کھیلتا رہا تھا۔
ریاست کنیٹی کٹ میں فائرنگ کے اس واقعے کے ایک ہفتے بعد، امریکہ کی قومی رائفل ایسوسی ایشن کے وائس پریذیڈنٹ وین لا پئیر نے اس اعتراض کو یکسر مسترد کر دیا تھا کہ امریکہ میں ہتھیاروں کی فروخت اور پھیلاؤ کی وجہ سے اس نوعیت کے سانحات پیش آتے ہیں۔ بلکہ وین لا پئیر نے ان واقعات کا ذمہ دار وڈیو گیم انڈسٹری کو ٹھہرایا تھا جو ان کے بقول، ’’اپنے ہی لوگوں کے خلاف وڈیو گیمز کی صورت میں تشدد کا بیچ بو رہی ہے اور اس سے پیسے کما رہی ہے‘‘۔
حال ہی میں، ریاست کنیٹی کٹ میں ایک تنظیم نے بچوں کی ایسی پُر تشدد وڈیو گیمز کو اکٹھا کرکے ضائع کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جو اُن کے مطابق بچوں میں غیر صحتمندانہ رجحانات کو فروغ دیتی ہیں۔ لیکن ان کی اس رائے سے سبھی لوگ متفق دکھائی نہیں دیتے۔
کیلی فورنیا کے ایک غیر سرکاری تعلیمی ادارے کے سربراہ کیمی اکھاوان کا کہنا ہے، ’’اس سے پہلے بھی تو چیزیں تھیں۔ جیسا کہ کتابیں، کامک بکس، ٹیلی ویژن، ریڈیو وغیرہ ۔۔۔ ہماری ثقافت میں شامل بہت سی چیزیں تشدد کو فروغ دے رہی تھیں۔ ہم ایک تشدد پسند معاشرے میں رہتے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں اس کا مکمل ذمہ دار وڈیو گیمز کو ٹھہرانا چاہیئے؟ ہمیں اس پر بحث کرنا ہوگی‘‘۔
کیمی اکھاوان کہتے ہیں کہ وڈیو گیمز کی وجہ سے تشدد حقیقت سے قریب تر ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اصل اور تخیل کا فرق مٹ گیا ہے۔ گو کہ ان کے مطابق لوگوں کی اکثریت اس باریک فرق کو سمجھتی ہے۔ کیمی اکھاوان کا کہنا ہے کہ، ’’امریکہ میں بارہ سے سترہ سال کی عمر کے بچوں میں سے 97٪ بچے وڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔ جبکہ 1995 کے بعد کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ میں بچوں میں جرائم کی شرح میں بتدریج کمی دیکھی گئی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ 1995 سے اب تک وڈیو گیم انڈسٹری کئی گنا زیادہ فروغ پا چکی ہے‘‘۔
ریاست ٹیکساس کی اے اینڈ ایم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سائکولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کرس فرگوسن کے مطابق معاشرے میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں تمام حملہ آور وڈیو گیمز کھیلنے کا رجحان نہیں رکھتے تھے۔ فرگوسن کا کہنا ہے کہ، ’’زیادہ تر حملہ آور سماج کے خلاف ہوتے ہیں یا پھر کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ جس قسم کا تشدد ٹی وی پر یا فلموں میں دکھایا جاتا ہے اس سے اُن پر ایسا جذباتی اثر نہیں پڑتا کہ وہ معاشرے میں تشدد کے فروغ کا سبب بن سکیں۔‘‘
فرگوسن کے مطابق معاشرے میں دو مختلف طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔۔۔ ایسے لوگ جنہیں وڈیو گیمز پسند ہیں یا پھر ایسے لوگ جنہیں ہتھیار پسند ہیں۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ کی قومی رائفل ایسو سی ایشن ہتھیاروں کی بجائے وڈیو گیمز کی بات کرکے لوگوں کا دھیان بٹانا چاہتی ہے۔
امریکہ میں شہریوں کے پاس ہتھیار رکھنے کی حمایت کرنے والی ایک تنظیم کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر ڈیو ورک مین کا کہنا ہے کہ، ’’ریاست کنیٹی کٹ میں ایک شخص کی جانب سے کیے گئے عمل کی پاداش میں آپ معاشرے کے ان تمام شہریوں سے ہتھیار نہیں چھین سکتے جو امن پسند ہیں اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ہی اپنے پاس ہتھیار رکھتے ہیں۔‘‘۔