رسائی کے لنکس

امریکہ نے ایچ ون بی ویزہ پر تیز کارروائی عارضی طور پر معطل کر دی


ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایچ ون بی ویزہ پر کارروائی کو عارضی طور پر معطل کر دیا جس کی وجہ سے اعلیٰ امریکی کمپنیوں میں ملازمت کے خواہش مند غیر ملکیوں کو ویزہ منظوری کے ایک طویل عمل سے گزرنا پڑے گا۔

یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز (یو ایس سی آئی ایس) نے کہا ہے کہ وہ تین اپریل سے تیزی سے ان درخواستوں کو نمٹانے کے عمل کو چھ ماہ کے لیے معطل کر رہا ہے۔ ایچ ون بی ویزہ کے تحت درخواست دہندہ کو مہینوں کے بجائے پندرہ دنوں میں ویزہ مل جاتا تھا۔ مذکورہ ویزہ کے تحت امریکی کمپنیوں کو انفارمیشن ٹکنالوجی، ادویات، انجینئرنگ اور میتھ میٹکس جیسے شعبوں میں گریجویٹ سطح کے ماہرین کی بھرتی کی اجازت تھی۔

امریکہ کے اس نئے فیصلے سے امریکی کمپنیوں میں کام کرنے کے خواہش مند بھارتی ہنرمندوں پر بھی اثر پڑے گا۔ بھارتی سکریٹری خارجہ ایس جے شنکر نے جو کہ اس وقت امریکہ کے دورے پر ہیں، ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں سے متعدد امور کے علاوہ ایچ ون بی ویزہ کے سلسلے میں بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایچ ون بی ویزہ کو پوری طرح امیگریشن ایشو سمجھنے کے بجائے تجارتی ایشو سمجھنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس ارکان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا۔ ہم نے ان کو بتایا کہ ایچ ون بی تجارت اور سروسز کے زمرے کا ویزہ ہے جو کہ امریکی کمپنیوں کو مسابقت میں رہنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ امریکی کمپنیوں کو امریکہ واپس لانے اور امریکہ میں مزید سرمایہ کاری کی خواہش مند ہے تو یہ بات بہت اہم ہے کہ تیزی سے بڑھتا ہوا امریکہ مزید مسابقت میں رہے۔

اس سے قبل امریکی کانگریس میں ایک بل پیش کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ جو کمپنیاں ایچ ون بی ویزہ کے تحت ملازمین کی بھرتی کرتی ہیں ان کو اب اپنے ملازمین کی تنخواہ دوگنا کرکے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر سالانہ کرنا ہوگا۔

اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو امریکی کمپنیوں کے لیے بھارت سمیت دیگر ملکوں سے آئی ٹی پروفیشنلس کو ملازم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے اس وقت کے ترجمان وکاس سوروپ نے کہا تھا کہ ماضی میں بھی ایسے بل پیش کیے جا چکے ہیں۔ ہم ٹرمپ انتطامیہ اور امریکی کانگریس سے اعلی سطح پر مذاکرات کر رہے ہیں۔ وہ اس معاملے میں ہماری پوزیشن سے واقف ہیں۔ ہمیں قبل از وقت کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے۔

خیال رہے کہ مذکورہ بل کے پیش کیے جانے کے بعد بھارت میں متعدد کمپنیوں کے شیئر بری طرح گر گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG