اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، نکی ہیلی نے منگل کے روز کہا ہے کہ غزہ سرحد پر فلسطینیوں کےمہلک جھڑپوں کے معاملے پر اسرائیل نے ’’ضبط‘‘ سے کام لیا؛ اور یہ کہ تشدد کی کارروائیوں کا ذمے دار غزہ پر حکمران حماس کا شدت پسند گروپ ہے۔
اُنھوں نے یہ بات غزہ کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔
امریکی سفیر نے کہا کہ ’’حالیہ دِنوں حماس کے دہشت گردوں نے، جن کی ایران حمایت کرتا ہے، اسرائیلی سلامتی افواج اور زیریں ڈھانچے پر حملوں کی شہ دی تھی‘‘۔
ہیلی نے کہا کہ پرتشدد کارروائی کا باعث امریکی سفارت خانے کے مقام کی تبدیلی نہیں، بلکہ یہ حماس کے اشتعال کا نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے پیر کے روز بتایا کہ اس افسوس ناک واقعے میں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں 58 فلسطینی ہلاک ہوئے۔
ہیلی نے اس تاثر کو یکسر مسترد کیا کہ پیر کے روز کے تشدد کے واقعات کا کسی طور پر امریکی سفارت خانے کا یروشلم منتقل کیا جانا تھا۔
سفیر نے کہا کہ ’’اس سے امن کے مستقبل کے امکانات پر کوئی نقصاندہ اثر نہیں پڑے گا۔ پھر بھی، کچھ لوگوں کے لیے یہ تشدد کا ایک بہانہ ہے۔ لیکن، ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ حماس کی دہشت گرد تنظیم برسہا برس سے لوگوں کو مشتعل کرتی رہی ہے، امریکہ کی جانب سے سفارت خانہ منتقل کرنے کے فیصلے سے بہت پہلے کا معاملہ ہے‘‘۔
ہیلی نے مزید کہا کہ سفارت خانہ منتقل کرنے کا فیصلہ ’’امریکی عوام کے عزم کا غماز ہے‘‘، اور ’’ہمارے اقتدار اعلیٰ کا یہ بنیادی حق ہے کہ ہم فیصلہ کریں آیا ہمارا سفارت خانہ کہاں ہونا چاہیئے، جس حق کا اس کمرے میں موجود تمام ارکان اپنے ملک کے لیے پسند کریں گے‘‘۔
اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار برائے مشرق وسطیٰ امن عمل، نکولے ملادینوف نے یروشلم سے کونسل کے ارکان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہلاکتوں کا ’’کوئی جواز نہیں تھا‘‘۔