|
ویب ڈیسک—غزہ کی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی دھڑے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں قتل کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حماس نے اسماعیل ہنیہ کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کی قیام گاہ پر حملہ کیا گیا۔
حماس نے الزام لگایا ہے کہ یہ حملہ صیہونیوں نے کیا ہے جس میں ان کی موت ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ کی ’فارسی‘ سروس کے مطابق حماس نے ایران میں اپنے سیاسی ونگ کے سربراہ کی موت کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔ لیکن اس دعوے کے لیے عسکری تنظیم نے کوئی بھی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
اسرائیل نے تاحال اس معاملے پر کوئی ردِعمل نہیں دیا۔ تاہم امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکہ اس حملے میں ملوث نہیں ہے۔
دورۂ سنگاپور کے دوران 'چینل نیوز ایشیا' کو دیے گئے انٹرویو میں بلنکن کا کہنا تھا کہ "ہمیں اس بارے میں نہیں جانتے تھے اور نہ ہی ہم اس میں ملوث ہیں، اس معاملے میں قیاس آرائیاں کرنا بہت مشکل ہے۔"
وی او اے فارسی کے مطابق حماس کے ایک سینئر رکن موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایک بزدلانہ فعل ہے۔ ان کی موت رائیگاں نہیں جائے گی۔
حماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے گفتگو میں کہا کہ اسماعیل ہنیہ کی اسرائیل کے ہاتھوں موت حماس کے ارادوں کو توڑنے کی کوشش ہے۔
سامی ابو زہری نے کہا کہ حماس اپنے راستے پر گامزن رہے گی کیوں کہ ہمیں کامیابی کا یقین ہے۔
سعودی عرب کے خبر رساں ادارے ’الحدث‘ کے مطابق اسماعیل ہنیہ کو رات کے دو بجے نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہنیہ کو نشانہ بنانے کے لیے میزائل استعمال کیا گیا جس میں وہ اپنے محافظ وسیم ابو شعبان سمیت مارے گئے۔
ایران کے نشریاتی ادارے ’پریس ٹی وی‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ ایران کے نومنتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے۔
اسماعیل ہنیہ ایران کے سرکاری مہمان تھے جن کو حکومت نے تقریب میں مدعو کیا تھا۔
مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں 70 سے زیادہ ممالک کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ ایران اور مغربی ممالک میں جوہری توانائی پر مذاکرات کے یورپی یونین کے معاون نے بھی شرکت کی تھی۔
رپورٹس کے مطابق ایرانی پاسدارانِ انقلاب کا کہنا ہے کہ حملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اس کی تفصیلات آج جاری کر دی جائیں گی۔
امریکہ کے نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی موت سے متعلق رپورٹس سے آگاہ ہیں۔
’سی این این‘ نے رپورٹ میں مزید بتایا کہ اسرائیل کی فوج نے اسماعیل ہنیہ کی موت سے متعلق رپورٹس پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس پر تبصرہ نہیں کرتی۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل وزیرِ ثقافت عمیحائی اِلیاہو نے سوشل میڈیا پر عبرانی زبان میں ایک بیان میں کہا ہے کہ دنیا کو گندگی سے پاک کرنے کا یہی درست طریقہ ہے۔ مزید کوئی ’امن‘ یا ہتھیار ڈالنے کے معاہدے نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے سے امن آئے گا اور امن کی خواہش رکھنے والوں کے ساتھ رہنے والوں کو سکون اور تقویت ملے گی۔
ان کے بقول ’’ہنیہ کی موت دنیا کو کچھ بہتر بنا دے گی۔‘‘
اسماعیل ہنیہ اکثر اپنے بیانات میں کہا کرتے تھے کہ ’’ہمارے لوگ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ اپنے حقوق کا دفاع کرتے رہیں گے۔‘‘
حماس کے ذرائع کے مطابق اسماعیل ہنیہ کی عمر لگ بھگ 62 برس تھی۔ عسکری گروہ کے سیاسی ونگ کے سربراہ کے طور پر ان کا 2017 میں تقرر کیا گیا تھا۔
اسماعیل ہنیہ فلسطینی علاقے غزہ پر اسرائیل کی طرف سے عائد سفری پابندیوں سے بچنے کے لیے ترکیہ اور قطر کے دارالحکومت دوحہ کے درمیان سفر اور قیام کرتے رہتے تھے۔
حالیہ ہفتوں میں انہوں نے ترکیہ، مصر، قطر اور ایران کا سفر کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق اسماعیل ہنیہ 1980 کی دہائی میں حماس میں شامل ہوئے تھے اور انہیں 2004 میں مخصوص خفیہ رہنماؤں میں شامل کیا گیا تھا جب کہ 2006 میں وہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیرِ اعظم نامزد ہوئے تھے۔
سال 2017 میں اسماعیل ہنیہ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ ان کے تقرر کے کچھ عرصے بعد ہی امریکہ نے حماس کو خصوصی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔
امریکہ سمیت اسرائیل اور یورپی یونین بھی حماس کو دہشت گرد تسلیم قرار دیتے ہیں۔
اسماعیل ہنیہ گزرتے برسوں کے ساتھ کئی بار مذاکرات کا حصہ بھی رہے اور انہوں نے اس سلسلے میں اپریل 2008 میں امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر سے بھی قاہرہ میں ملاقات کی تھی جب کہ رواں برس ہی ان کی ملاقاتیں قطر کے امیر شیخ حماد بن خلیفہ الثانی، چین کے سفارت کار وانگ کیجان سمیت ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان سے ہوئی تھیں۔
واضح رہے کہ اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے کئی افراد غزہ جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
اپریل کے آغاز میں حماس نے بتایا تھا کہ اسرائیل کی بمباری میں اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے حازم، امیر اور محمد مارے گئے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازع گزشتہ برس سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیلی علاقوں پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوا۔
حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں فوجی اہلکاروں سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔
حماس نے حملے میں لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے سو سے زائد افراد کو نومبر 2023 میں کچھ دن کے عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق سو کے قریب افراد اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں جب کہ 40 کے قریب یرغمالوں کی اموات ہو چکی ہیں۔
اسرائیل نے حماس کے حملے کے فوری بعد غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور بمباری شروع کر دی تھی۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کو دس ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں لگ بھگ 39 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔
امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں کئی ماہ سے جنگ بندی کے معاہدے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ معاہدہ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے رواں سال مئی میں تجویز کیا گیا تھا۔
معاہدے کے پہلے مرحلے میں چھ ہفتوں کے لیے جنگ بندی کی تجویز کے علاوہ سات اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے بدلے اسرائیلی جیل میں قید فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل تھی۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔