جمعرات کو اسرائیلی ٹینکوں اور فوجیوں نے غزہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے پیش قدمی کی لیکن انہیں حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے مارٹر گولوں اور سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے جو سرنگوں سے نکل کر حملے کر رہے تھے۔
غزہ کی پٹی میں شمال میں واقع آبادی کا مرکزی حصہ اسرائیلی فورسز کے حملوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ شہر کے اس حصے میں حماس کے فوجی ٹھکانے ہیں جنہیں ختم کرنے کا انہوں نے عزم کر رکھا ہے۔ اور اسی لیے مشرقی حصے کی 10 لاکھ سے زیادہ آبادی کو فوری طور پر وہاں سے نکل کر جنوب میں جانے کا حکم دیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوجی کمانڈر بریگیڈیئر جنرل ازک کوہن نے کہا کہ ہم غزہ شہر کے دروازے پر ہیں۔
مزاحمت توقع سے زیادہ ہے
رائٹرز کی رپورٹ میں رہائشیوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ حماس اور اس کی اتحادی اسلامی جہاد کے جنگجو سرنگوں سے نکل کر ٹینکوں پر فائر کرنے کے بعد دوبارہ سرنگوں میں چلے جاتے ہیں۔
ایک فلسطینی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے رات بھر غزہ پر بمباری جاری رکھی ، لیکن صبح ہمیں پتہ چلا کہ وہ ابھی تک شہر میں داخل نہیں ہو سکے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مزاحمت ان کی توقع سے زیادہ ہے۔
اسرائیل کے فوجی عہدے داروں شہر کے اندر لڑائی کی حکمت عملی پر توجہ دے رہے ہیں اور اپنی توجہ شمالی علاقے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
غزہ میں انسانی بحران کی صورت حال
فلسطینوں کو خوراک، ایندھن، پینے کے صاف پانی اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔شہر میں بجلی نہیں ہے۔ سیوریج کا پانی گلیوں میں رس رہا ہے۔ کچھ لوگ کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ اسرائیل نے محدود پیمانے پر فلسطینوں کے لیے رفح کراسنگ کے راستے بین الاقوامی امداد پہنچانے کی اجازت دی ہے لیکن امدادی ایجنسیوں کے مطابق وہ 23 لاکھ کی آبادی کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔
غزہ کے اسپتالوں میں ادویات کی عدم فراہمی اور جنریٹرز کے لیے ایندھن نہ ہونےکے سبب 35 میں سے ایک تہائی میں کام نہیں ہو رہا۔ ایندھن نہ ہونے کے باعث ایمبولنسز کھڑی ہو گئی ہیں اور لوگ زخمیوں اور مریضوں کو گدھا گاڑیوں پر اسپتال پہنچا رہے ہیں۔
ایندھن کی محدود فراہمی کا امکان
اسرائیلی مسلح افواج کے سربراہ نے جمعرات کو ایندھن پر عائد پابندی میں نرمی کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نگرانی کے نظام کے تحت اسپتالوں کو ان کی ضرورت کا ایندھن فراہم کیا جا سکتا ہے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام نے بتایا ہے کہ سات اکتوبر سے جاری بمباری میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 9 ہزار سے بڑھ چکی ہے جن میں 3760 بچے اور 2326 خواتین شامل ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے 1000 بچوں اور ترکیہ نے کینسر کے مریضوں کو اپنے ہاں علاج کی پیشکش کی ہے۔
جنگ کے خلاف عالمی ردعمل میں اضافہ
اگرچہ مغربی اقوام اور امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی روایتی طور پر حمایت کی جا رہی ہے لیکن غزہ میں عمارتوں کے ملبے کے ڈھیروں، لاشوں کے دلخراش مناظر اور عام شہریوں کی زبوں حالی کی تصاویر اور ویڈیوز سے دنیا کے متعدد ملکوں میں جنگ بندی کی اپیلوں اور احتجاجی مظاہروں میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور سے مسلمان ملکوں میں۔
محفوظ علاقے بھی محفوظ نہیں رہے
اسرائیل نے بمباری سے بچنے کے لیے غزہ کا شمالی حصہ خالی کر کے رہائشیوں کو جنوبی حصے میں جانے کا حکم دیا تھا، لیکن جنوبی علاقے بھی اسرائیلی بمباری سے محفوظ نہیں رہے۔غزہ میں صحت کے حکام نے بتایا ہے کہ خان یونس قصبے میں اسرائیلی ٹینک کی گولہ باری سے تین فلسطینی جب کہ پناہ گزین کیمپ میں ایک اسکول کے قریب فضائی حملے میں پانچ افراد مارے گئے۔
رہائشیوں نے بتایا ہے کہ پناہ گزین کیمپ میں بمباری کا نشانہ بننے والے مکانوں کے ملبے سے 15 لاشیں نکالی جا چکی ہیں ۔
جبالیا کے نام سے موسوم یہ کیمپ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت قائم کیا گیا تھا جہاں اسرائیلی علاقوں سے بے دخل ہونے والے فلسطینوں نے پناہ لی تھی۔ یہ ایک گنجان آباد کیمپ ہے۔
جبالیا پناہ گزین کیمپ پر بمباری سے سینکڑوں ہلاکتیں
غزہ میں حماس کے میڈیا آفس نے بتایا ہے کہ منگل اور بدھ کو جبالیا پر ہونے والے دو حملوں میں کم از کم 195 افراد ہلاک اور 120 لاپتہ ہو گئے جب کہ زخمیوں کی تعداد کم ازکم 777 ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ جبالیا کیمپ پر حملے میں حماس کے دو کمانڈروں کو مار دیا گیا ہے۔
اسرائیل کی جنگی کابینہ کے وزیر بینی گینٹز نے کہا ہے کہ ہم ان کا ہر جگہ پیچھا کریں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ جنگ طویل ہو سکتی ہے۔
اسرائیلی فوج کے ایک اعلیٰ عہدے دار بریگیڈیئر جنرل اودو میز راہی نے کہا ہے کہ فوج غزہ میں داخل ہونے کے لیے راستے کھول رہی ہے اور اسے بارودی سرنگوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’حماس نے خود کو مقابلے کے لیے اچھی طرح سے تیار کیا ہوا ہے۔‘‘
زمینی کارروائی شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کے 18 فوجی مارے جا چکے ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ جھڑپوں میں درجنوں عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
غزہ میں پھنسے غیر ملکیوں کی واپسی شروع
اسرائیل حماس جنگ میں بڑی تعداد میں وہ لوگ بھی پھنس گئے ہیں جن کے پاس بیرونی ملکوں کے پاسپورٹ ہیں ۔ وہ کئی ہفتوں سے رفح کراسنگ کے راستے غزہ چھوڑنے کا انتظار کر رہے تھے۔ بدھ کو پہلی بار کچھ لوگوں کو مصر میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔
فلسطینی اہل کار ابو محسن نے بتایا کہ بدھ کو تقریباً 320 افراد نے سرحد عبور کی جب کہ جمعرات کو 400 کے لگ بھگ غیر ملکی شہری رفح کراسنگ سے مصر میں داخل ہوں گے۔
متحدہ عرب امارات اور ترکیہ نے زخمیوں اور بیماروں کو اپنے ملکوں میں علاج فراہم کرنے کی پیش کی ہے۔ امکان ہے کہ انہیں بھی رفح کراسنگ کے ذریعے بھیجا جائے گا۔
( اس تحریر کے لیے کچھ معلومات رائٹرز، ایسوسی ایٹڈ پریس اور اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)
فورم