اسرائیل نے غزہ میں ہفتے کو کی جانے والی جنگ بندی میں مزید 24 گھنٹے کی توسیع کردی ہے لیکن 'حماس' نے غزہ میں موجود اسرائیلی فوج کی واپسی تک جنگ بندی تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
اسرائیلی حکومت کی جانب سے ہفتے کی رات جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی میں توسیع کی درخواست اقوامِ متحدہ نے کی تھی جسے اسرائیل کی 'سکیورٹی کابینہ' نے منظور کرلیا ہے۔
بیان کے مطابق جنگ بندی کا اطلاق مقامی وقت کے مطابق ہفتے کی رات 12 بجے سے اتوار کی رات 12 بجے تک ہوگا لیکن اسرائیلی حکام نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ سے راکٹ حملوں کی صورت میں اسرائیل جوابی کارروائی کرے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کے عرصے کے دوران اسرائیلی فوج ان سرنگوں کی تلاش اور انہیں تباہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی جنہیں، اسرائیل کے بقول، 'حماس' کے جنگجو ہتھیار اسمگل کرنے اور سرحد پار آنے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں سکیورٹی کابینہ کا اگلا اجلاس اتوار کو ہوگا جس میں "اسرائیلی عوام کے چین اور سکون کی واپسی تک" غزہ میں فوجی کارروائی جاری رکھنے کے امکان پر غور کیا جائے گا۔
اس سے قبل ایک اسرائیلی عہدیدار نے ہفتے کی رات آٹھ بجے ختم ہونے والی جنگ بندی میں چار گھنٹے کی توسیع کا عندیہ دیا تھا جسے 'حماس' نے مسترد کرتے ہوئے اسرائیل پر کئی راکٹ داغے تھے۔
غزہ کی حکمران جماعت 'حماس' نے ہفتے کی شب جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا تھا کہ 12 گھنٹوں کی عارضی جنگ بندی ختم ہونے کے دو گھنٹے بعد ہی تنظیم کے جنگجووں نے اسرائیل پر کئی راکٹ داغے ہیں۔
اسرائیلی پولیس کے مطابق غزہ کے فلسطینی جنگجووں کی جانب سے ہفتے کی شب فائر کیے جانے والے راکٹوں کے باعث پورا اسرائیل راکٹ حملوں کے سائرن سے گونج اٹھا تھا۔
پولیس کے مطابق فائر کیے جانے والے راکٹ اسرائیل کے دوسرے بڑے شہر تل ابیب تک پہنچے ہیں تاہم ان کی وجہ سے ہونے والے کسی جانی یا مالی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
راکٹ حملوں سے چند گھنٹے قبل اسرائیلی حکومت کے ایک عہدیدار نے غیر ملیچ ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ اسرائیل ہفتے کو کی جانے والی 12 گھنٹے کی جنگ بندی میں مزید چار گھنٹے کی توسیع پر رضامند ہوگیا ہے۔
لیکن 'حماس' نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسے غزہ کے سرحدی علاقوں میں موجود اسرائیلی فوج کی واپسی تک عارضی جنگ بندی میں توسیع قبول نہیں اور وہ اسرائیلی علاقوں پر اپنے راکٹ حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر رہی ہے۔
اس سے قبل ہفتے ہی کو غزہ کی صورتِ حال پر غور کے لیے پیرس میں ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں شریک سات ملکوں کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل اور 'حماس' سے جنگ بندی میں توسیع کی اپیل کی تھی۔
اجلاس میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، قطر، ترکی اور فرانس کے وزرائے خارجہ شریک تھے جنہوں نے فریقین سے مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
اسرائیل اور 'حماس' نے گزشتہ روز 12 گھنٹوں کے لیے لڑائی روکنے پر اتفاق کیا تھا تاکہ اسرائیلی محاصرے کا شکار غزہ کے عام شہریوں تک طبی امداد اور بنیادی ضرورت کی اشیا پہنچائی جاسکیں۔
ہفتے کو غزہ کے مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے جنگ بندی موثر ہوتے ہی غزہ میں لوگوں نے اپنے گھروں کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگانے، اشیائے خور و نوش جمع کرنے اور ہلاک ہونے والے اپنے عزیز و اقارب کی لاشیں اکٹھی کرنے کے لیے بمباری کا نشانہ بننے والے علاقوں اور منہدم عمارتوں کا رخ کیا۔
غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے دوران کی جانے والے امدادی کارروائیوں کے دوران اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والی عمارتوں کے ملبے سے 147 لاشیں برآمد ہوئی ہیں جس کے بعد گزشتہ 19 روز سے جاری اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1050 تک جاپہنچی ہے ۔
فلسطینی حکام کے مطابق جنگ بندی موثر ہونے سے چند گھنٹے قبل اسرائیل نے غزہ کے بعض علاقوں پر شدید بمباری کی جس سے کئی عمارتیں منہدم اور ایک ہی خاندان کے 20 افراد سمیت درجنوں شہری ہلاک ہوئے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کے اطلاق سے قبل غزہ میں ہونے والی لڑائی میں اس کے مزید سات فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں جس کےبعد غزہ کے فلسطینی جنگجووں کے ساتھ زمینی لڑائی میں مرنے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 42 ہوگئی ہے۔
آٹھ جولائی سے جاری تصادم کے دوران فلسطینی جنگجووں کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملوں کے نتیجے میں دو اسرائیلی شہری اور تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک مزدور بھی ہلاک ہوئے ہیں۔