امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور ان کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سامنے پیش ہوگئے ہیں۔
منگل کو دارالحکومت اسلام آباد میں کمیشن کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں سابق پاکستانی سفیر نے کمیشن کے ارکان کو امریکی کاروائی میں القاعدہ سربراہ کی ہلاکت کے بعد واشنگٹن میں امریکی سفارت خانے کی سرگرمیوں کے متعلق آگاہ کیا۔
اس سے قبل گزشتہ روز کمیشن کو جمع کرائے گئے اپنے تحریری بیان میں حسین حقانی نے موقف اختیار کیا تھا کہ اسامہ بن لادن کی امریکی کاروائی میں ہلاکت کے بعد انہوں نے اور انکے سفارتی عملے نے وزارتِ خارجہ کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر مکمل عمل درآمد کیا تھا۔
اپنے بیان میں حسین حقانی نے سیکیورٹی کلیئرنس حاصل کیے بغیر ہزاروں امریکی اہلکاروں کو ویزوں کے اجرا سے متعلق الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہےکہ امریکہ میں ان کے ساڑھے تین سالہ دورِ سفارت کاری کے دوران واشنگٹن میں موجود امریکی سفارت خانے کی جانب سے کبھی بھی متعلقہ حکام کی اجازت کے بغیر ویزے جاری نہیں کیے گئے۔
اپنے تحریری بیان میں حقانی کا کہنا ہے کہ ان کے ساڑھے تین سالہ دورِ سفارت کاری کے دوران پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی'، وزارتِ خارجہ اور مسلح افواج کے صدر دفتر 'جوائنٹ سروسز ہیڈکوارٹر' کے حکام کی جانب سے کبھی بھی تحریری طور پر اس نوعیت کے الزامات واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے علم میں نہیں لائے گئے۔
حسین حقانی نے واضح کیا ہے کہ ملکی سلامتی سے متعلق اداروں نے ان سے صرف دو بار ویزوں کے اجرا سے متعلق وضاحت طلب کی تھی جس کا انہوں نے تحریری جواب دے دیا تھا۔
حقانی نے انہیں موصول ہونے والے خطوط اور اپنے جوابات کی نقول بھی کمیشن کو جمع کرائی ہیں جب کہ ان کی جانب سے گزشتہ چند برسوں کے دوران واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی جا نب سے امریکی اہلکاروں کو جاری کیے گئے ویزوں کی تعداد سے متعلق ایک جدول بھی کمیشن کو جمع کرائے گئے ان کے بیان کا حصہ ہے۔
سابق سفیر نے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ سانحہ ایبٹ آباد کے بعد انہیں ایک جانب تو اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ امریکی حکومت، کانگریس اور ذرائع ابلاغ پاکستان کی حکومت، مسلح افواج اور خفیہ ایجنسیوں کو اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا ذمہ دار قرار نہ دیں جب کہ دوسری جانب انہیں امریکی کاروائی کے باعث پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی پہ احتجاج کرنا تھا۔
حقانی نے کہا ہے کہ واقعہ کے بعد ان سے ملاقاتوں میں امریکی حکام کا رویہ درشت اور لہجہ بعض اوقات دھمکی آمیز ہوا کرتا تھا اور وہ پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پہ معذرت کرنے کے بجائے الٹا پاکستان سے اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ اور ان کے اہلِ خانہ تک امریکہ کو رسائی دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اپنے بیان میں حسین حقانی نے کہا ہے کہ ایک حالیہ سروے کے مطابق 55 فیصد امریکی پاکستانیوں کو دشمن تصور کرتےہیں اور ان حالات میں وہاں کام کرنا بڑامشکل تھا لیکن اس کے باوجود، ان کے بقول، انہوں نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دیں۔
یاد رہے کہ رواں برس دو مئی کی شب امریکی کمانڈوز نے ایک خفیہ کاروائی کرتے ہوئے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد کے ایک مکان میں روپوش القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا تھا اور ان کی لاش اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔
امریکی کاروائی اور اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک چار رکنی کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کی رپورٹ رواں ماہ کے اختتام تک متوقع ہے۔
قبل ازیں کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا تھا کہ حسین حقانی کو اس لیے طلب کیا گیا ہے کہ کمیشن کے اراکین واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے امریکی اہلکاروں کو جاری کیے گئے ویزوں کے اجرا کے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز کی جانب سے 'میمو گیٹ' اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جانے کے بعد حسین حقانی گزشتہ ماہ امریکہ میں پاکستانی سفیر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
امریکی حکومت کو لکھے گئے مبینہ مراسلے سے متعلق اس اسکینڈل کے مقدمے کی سماعت ان دنوں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ میں جاری ہے جس نے واقعہ کی تحقیقات مکمل ہونے تک حسین حقانی کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔