امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے’’میمو گیٹ اسکینڈل‘‘ کی تحقیقات کے لیے اُن کے خلاف دائر آئینی درخواست کے جواب میں اپنا تحریری بیان سپریم کورٹ میں جمع کراتے ہوئے ایک بار پھر متنازع صدارتی میمو یا خط سے لاتعلقی کا اظہار اور عدالت سے اس مقدمے کو خارج کرنے کی استدعا کی ہے۔
اُن کی طرف سے یہ بیان اُن کی وکیل اور انسانی حقوق کی نامور کارکن عاصمہ جہانگیر نے جمعہ کو عدالت عظمیٰ میں جمع کرایا، جس میں کہا گیا ہے کہ معزز عدالت اس مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتی کیونکہ یہ آئین کی شق (3)184 کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
لیکن مقدمہ خارج کرنے کی حسین حقانی کی درخواست پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے تکنیکی اعتراضات لگا کر جمعہ کو ہی واپس کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے کو خارج کرنے کی درخواست کرنے کے مجاز نہیں البتہ اگر سابق سفیر چاہیں تو عدلیہ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کے احاطے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ آئینی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ متنازع خط کے باعث پاکستان میں لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی لیکن ان حقوق کی نشاندہی نہیں کی گئی۔
’’ایک مفروضہ - میمو، جو کہ جعلی میمو ہے اور جو کہ صرف ایک بندہ تسلیم کرتا ہے جس کا خود اپنا کردار مشکوک ہے، (تو کیا) ہمارا ملک اتنا نازک ہے کہ اس کے اوپر اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور لوگوں کے بنیادی حقوق ختم ہو گئے، نا اُنھوں نے بتایا کہ کون سے بنیادی حقوق ختم ہو گئے، تو یہ درخواست کس طرح قابل سماعت ہے۔ ہماری یہ استدعا ہے کہ یہ قابل سماعت نہیں۔‘‘
مزید برآں سابق سفیر نے اپوزیشن رہنما نوازشریف کی طرف سے عوامی مفاد کو بہانہ بنا کر دائر کیے گئے اس مقدمے کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔
حسین حقانی نے عدالت عظمی میں داخل کرائے گئے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ نواز شریف کے دور حکومت میں ان کے خلاف جعلی الزمات کی بنیاد پر مقدمات قائم کر کے اُنھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا جبکہ یہ بات بھی سب کے علم ہے کہ نواز شریف کے کہنے پر ہی انھیں حراست میں لے کر ان پر تشدد بھی کیا گیا تھا۔ ’’لہذا درخواست گزار کے ہاتھ صاف نہیں اور اُن کی اس کوشش میں انتقام کے عنصر کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘
اس بارے میں عاصمہ جہانگیر نے مزید کہا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پر سپریم کورٹ کو (سیاسی) دشمنی کا اکھاڑہ نا بنایا جائے۔‘‘
حسین حقانی نے اپنے تحریر بیان میں عدالت کے عبوری حکم کو ’’دشمنانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اُن کا موقف سنے بغیر جاری کیا گیا جس سے اُن کے بنیادی حقوق پر قدغن لگی ہے جن کے تحفظ کی ملک کے آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر سابق سفیر نے اس مقدمے کی نوعیت سیاسی بیان کرتے ہوئے عدالت سے اسے خارج کرنے کی استدعا کی ہے۔
اُنھوں نے پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کے اُس اخباری مضمون کو مکمل طور پر افسانوی قرار دیا ہے جس میں حسین حقانی پر میمو کا مصنف ہونے اور اس کو امریکی قیادت تک پہنچانے کا مشن تیار کرنے کا الزام لگایا گیا۔
سابق سفیر نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو میمو کی تحقیقات جلد سے جلد مکمل کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے اور وہ خود بھی سفیر کے عہدے سے صرف اس لیے مستعفی ہوئے تاکہ اس تحقیقاتی عمل میں حصہ لے کر اپنا بھرپور دفاع کر سکیں اس لیے عدالت میں ان کے خلاف دائر مقدمے کا اس مرحلے پر کوئی جواز نہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے نو رکنی بینچ نے یکم دسمبر کو نواز شریف سمیت کئی دیگر افراد کی طرف سے دائر درخواستوں کی ابتدائی سماعت کے بعد مقدمے کے فریقین کو 15 دن میں اپنے تحریری جوابات داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس مقدمے میں نواز شریف نے حسین حقانی کے علاوہ صدر آصف علی زرداری، وفاق، منصور اعجاز، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی آیس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا کو بھی فریق بنایا ہے اور اس کی آئندہ سماعت 19 دسمبر کو ہوگی۔
تاحال دیگر فریقین نے اپنا جواب عدالت عظمیٰ میں داخل نہیں کیا ہے۔