پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی طرف سے پاناما لیکس کے معاملے پر تشکیل دی گئی چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور جمعرات کو وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے بیٹے حسن نواز دوسری بار ٹیم کے سامنے پیش ہوئے۔
اسلام آباد میں واقع فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں جمعرات کو بھی سکیورٹی کے سخت انتظامات دیکھنے میں آئے جہاں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا اجلاس ہوتا ہے۔
یہ کمیٹی گزشتہ ایک ماہ سے نواز شریف کے بچوں کے اثاثوں کی چھان بین کر رہی ہے۔ اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف کے بڑے بیٹے حسین نواز چار مرتبہ 'جے آئی ٹی' کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ حسن نواز نے جو دستاویزات گزشتہ پیشی میں 'جے آئی ٹی' کے سامنے پیش کی تھیں جمعرات کو بھی انہیں کے بارے میں ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ سرکاری طور پر تفتیش کی تفصیلات جاری نہیں کی جاتی ہیں۔
جمعرات کو جب حسن نواز مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے لیے آئے تو ان کے ہمراہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی آصف کرمانی بھی تھے۔
آصف کرمانی نے میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ حسین نواز کی تصویر افشا ہونے کے معاملے کی تحقیقات کرے۔ ان کے بقول یہ تصویر اس کمرے کی ہے جہاں جے آئی ٹی تفتیش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چند روز قبل حسین نواز کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے موقع پر ایمبولینس بلائے جانے کے معاملے کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
آصف کرمانی کا کہنا تھا کہ ایمبولینس بلائے جانے کے معاملے کی وضاحت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے حسین ںواز کے خاندان کے لیے یہ معاملہ اضطراب کا باعث بنا۔
واضح رہے کہ بدھ کو حسین نواز نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اس تصویر کو افشا کرکے انھیں تضحیک کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
اپنی درخواست میں وزیرِاعظم کے صاحب زادے نے عدالتِ عظمیٰ سے اپیل کی تھی کہ وہ ایک سابق یا حاضر سروس جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کر کے تصویر افشا ہونے کے حالات اور اسے افشا کرنے والوں کا تعین کرے۔
سپریم کورٹ نے 'جے آئی ٹی' سے تصویر کے معاملے پر پیر تک جواب طلب کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپریل میں پامانا پیپرز کے معاملے پر وزیراعظم کے بچوں کے غیر ملکی اثاثوں کی مفصل تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی جس نے 60 روز میں اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کرنی ہے۔ اس ٹیم کی کارروائی شروع ہوئے اب ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے آٹھ مئی کو اپنا کام شروع کیا تھا اور یہ ہر 15 روز کے بعد اپنی کارکردگی کی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کرتی ہے۔