دنیا کے سب سے بڑے سمندربحرالکاہل میں واقع کئی جزیروں پر مشتمل امریکی ریاست ہوائی اپنے خوشگوار موسم اور سیاحتی دلچسپیوں کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ اس ریاست کے ایک شہر ہونولولو کا ایک گھر اپنے اسلامی آرٹ اور ثقافتی خزانے کے باعث وہاں آنے والوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔
ہونولولو میں ساحل سمندر پرواقع یہ حویلی نما گھر دیکھنے میں مغلیہ دور کی کسی شاہی عمارت جیسا لگتا ہے۔ اس کا نام شانگری لا ہے۔ اسے جزیرے پر سیاحت کے آنے والی ایک امریکی خاتون ڈورس ڈیوک نے 1930 کی دہائی میں اس وقت تعمیر کروایا تھا جب یہ جزیرے امریکہ کا حصہ نہیں تھے۔
لائیلا برگ کا کہنا ہے کہ ڈورس ڈیوک کا شمار اس وقت دنیا کی امیر ترین خواتین میں ہوتا تھا۔ انھیں اسلامی دنیا کے فن اور ثقافت سے بہت لگاؤ تھا۔ ہوائی میں انھوں نے اپنا گھر اسی شوق کو مد نظر رکھ کر بنایا اور اسے اسلامی دنیا کی ثقافت اور فنون کے لیے وقف کردیا۔ آج دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔
ڈورس ڈیوک نے دنیا کے سفر کے دوران بہت سے اسلامی ممالک دیکھے ۔ انھیں وہاں کا آرٹ اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے اس جزیرے پر اپنی رہائش گاہ کو مختلف ملکوں کے آرٹ سے سجا دیا۔ لیکن ان تمام ممالک میں سے عرب اور بر صغیر پاک و ہند کی ثقافت کا رنگ یہاں سب سے نمایاں ہے۔
آج یہ حویلی نما گھر ہوائی سینٹر فار اسلامک آرٹ کے نام سے جانا جاتا ہے اور ہوائی آنے والے لاکھوں سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔
کیرول کیوہاک کا کہناہے کہ یہاں آنے والے زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ اسلامی دنیا کا پہلا تجربہ ہوتا ہے۔ وہ اس خوبصورت آرٹ کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ اسے یہاں دیکھنے کی توقع نہیں رکھتے۔ ان کے ذہن میں اسلام کے بارے میں شاید کچھ باتیں ہوں، لیکن یہاں آکر وہ اسلامی دنیا کی اقدار کے بارے میں اور اسکی تہذیب و ثقافت کے بارے میں متجسس ہو جاتے ہیں۔
کیرول کیوہاک اس میوزیم نما گھر کی منتظم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خاص طور پر ہوائی کے مقامی لوگوں کے لیے یہ جگہ کسی عجائب گھر سے کم نہیں۔
کیرول کہتی ہیں مقامی لوگ جو کبھی اس جزیرے سے باہر گئے ہی نہیں۔ ان کے لیے یہ گھر اسلام کی تہذیب و ثقافت کی طرف پہلا قدم ہے۔ وہ اسلام کی تاریخ کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں۔
کیرول کیوہاک کہتی ہیں کہ اسلامی دنیا کی ثقافت ہمیشہ سے دنیا کے لیے کشش کا باعث رہی ہے اور اسی ثقافت اور آرٹ کے ذریعے آج کی دنیا میں اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے یہ پہلا قدم ہے کہ آپ لوگوں کے اندر دلچسپی پیدا کریں۔ پھر ان کے ذہنوں کو بدلنے کی کوشش کریں۔ جب لوگ کسی حیران کن چیز کو دیکھتے ہیں تو اس کے بارے میں سوالات پوچھتے ہیں اور یہیں سے سیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے ۔
کیرول کا کہنا ہے کہ لوگ یہ سوال بھی پوچھتے ہیں کہ آیا اس گھر کی مالک ڈورس ڈیوک نے اسلام قبول کیا تھا یا نہیں۔ لیکن ان کاکہنا ہےکہ اس بارے میں کوئی مستند معلومات موجود نہیں۔
کیرول کا کہناہے کہ جہاں تک ہماری معلومات ہیں اس سوال کا جواب نہیں میں ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ انھیں اسلام سے گہرا لگاؤ تھا اور انھیں ان لوگوں نے بہت متاثر کیا تھا جنھیں وہ اسلامی ملکوں میں ملیں تھیں۔
ہوائی کے اس دور دراز اور باقی دنیا سے بالکل الگ جزیرے پر آنے والے سیاح اس حویلی نما گھر کے بارے میں کم ہی جانتے ہیں ۔ کیرول کیوہاک کا کہنا ہے وہ صرف پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت ہی سیاحوں کو ہی اس گھر کی سیاحت کی اجازت دیتی ہیں اور طے شدہ پروگرام کے بغیر یہاں کوئی نہیں آسکتا ۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے باوجود یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں سال ہا سال سے اضافہ ہو رہا ہے۔