رسائی کے لنکس

سندھ کے صوفی شاعر حضرت سچل سرمست کا عرس جاری


ان کی درگاہ کے احاطے میں ایک ایسا قبرستان بھی ہے جو مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی منفرد مثال ہے۔ یہاں مسلمان، عیسائی اور ہندو مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے کے برابر ابدی نیند سو رہے ہیں

سندھ کی سوہنی دھرتی میں جانے کیا دلکشی ہے کہ انگنت صوفیوں اور شاعروں نے ناصرف یہاں جنم لیا بلکہ متعدد بزرگ تو ایسے تھے جو صدیوں پہلے یہاں کھنچے چلے آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ حضرت سچل سرمست بھی ایسے ہی صوفی بزرگ شاعر ہیں جنہوں نے ناصرف سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا بلکہ آخری سانس بھی اسی سرزمین پر لی۔

اتوار 14 رمضان کو ان کا 193 واں عرس تھا جو تقریباً ہر عرس کی طرح تین دن تک جاری رہے گا۔ سرکاری خبر رساں ادارے، ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کراچی سے اتوار کو درازہ شریف میں واقع حضرت سچل سرمست کے عرس کی تقریبات کا افتتاح کرنے ضلع خیرپور پہنچے تھے۔

انہوں نے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھا کر عرس کی تقریبات کا باضابطہ طور پر افتتاح کیا، جس کے بعد محفل سماع اور سچل ایوارڈز کی تقریب ہوئی۔ وزیراعلیٰ سندھ کے خصوصی معاون برائے اوقاف و مذہبی امور، عبدالحسیب سمیت نصف درجن سے زائد اعلیٰ سرکاری افسروں نے بھی مزار پر حاضری دی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عبدالحسیب نے کہا کہ :’سندھ صوفی بزرگوں شاعروں اور دانشوروں کا مسکن رہی ہے۔ ان بزرگوں کے فیض سے آج بھی بے شمار لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس بہانے ہمیں ۔۔یعنی سندھ والوں کو آج بھی ان بزرگوں کی خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ انہی بزرگوں میں سے ایک امن و محبت کے پیامبر سچل سرمست بھی ہے۔ حضرت سچل کی روحانیت غضب کی تھی۔ اسی روحانیت، سوز اور جذبے کے سبب وہ سرمستی اور بے خودی میں رہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ آپ ’سرمست‘ کہلائے۔‘

حالات زندگی اور وجہٴ شہرت
سچل سرمست کئی زبانوں کے شاعر تھے۔ اردو، فارسی، سرائیکی اور ہندی میں ان کا کلام آج بھی موجود ہے۔ سندھی روایات کے مطابق انہیں ’سچل سائیں‘ بھی کہا جاتا ہے، حالانکہ ان کا اصل نام خواجہ حافظ عبدالوہاب فاروقی تھا۔ آپ کا سنہ پیدائش 1739ء ہے۔

سچل سرمست ابھی کم عمر ہی تھے کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ چچا نے ان کی پرورش کی اور وہی ان کے معلم بھی رہے۔ قرآن حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور تصوف کی تعلیم چچا ہی سے حاصل کی۔ گھر میں صوفیانہ ماحول تھا اسی میں ان کی پرورش ہوئی اور یہی ساری زندگی ان کے رگ و پے میں بسا رہا۔

عادتاً خاموش طبع اور نیک طبیعت تھے۔ شریک حیات جوانی میں ہی انتقال کرگئی تھیں۔ پھر ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ اس لئے زیادہ تر تنہا اور ویرانوں میں دن گزارتے تھے۔

سچل سرمست کے عرس میں صرف سندھ کے علاقائی باشندے ہی شرکت نہیں کرتے بلکہ پاکستان کے باقی علاقوں کے علاوہ بھارت سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند بھی ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔

سچل سائیں کا مزار اور عیسائی و ہندووٴں کا قبرستان
حضرت سچل سرمست نے درازا شریف ضلع خیرپور میں ہی 1826ء میں وفات پائی۔ ان کی درگاہ پر ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے، جبکہ عرس کے دنوں میں یہ تعداد لاکھوں تک جا پہنچتی ہے۔ ’ایکسپریس ٹریبیون‘ کی ایک خبر کے مطابق اسی درگاہ کے احاطے میں ایک ایسا قبرستان بھی ہے جو مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی ایک منفرد مثال ہے۔ اس قبرستان میں مسلمان، عیسائی اور ہندو مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے کے برابر ابدی نیند سو رہے ہیں۔

دنیا میں ایسی کوئی اور مثال نہیں ملتی جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ہی جگہ مدفون ہوں اور یہ سب سچل سرمست کی تعلیمات کا اثر ہے جو ذات پات، دین دھرم، رنگ و نسل سے اوپر اٹھ کر انسانیت اور بھائی چارے پر یقین رکھتے تھے۔

سچل سرمست کی درگاہ کے سجادہ نشین، ڈاکٹر سخی قبول محمد فاروقی کے مطابق’ہم روحانیت پر یقین رکھتے ہیں رسومات پر نہیں۔ اصل بات روح کا بدلنا ہے، لباس اور وضع قطع کا نہیں۔ کسی پر پابندی لگانے سے اسلام اور الہامی کتابوں کا پیغام عام نہیں ہوسکتا۔ ’درازہ کے شاہ‘ کسی تفریق پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اسی لئے آج بھی ان کی درگاہ کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں۔‘

ہندو کونسل پاکستان کے صدر، جیٹھ آنند کوہستانی کا کہنا ہے ’ہندو اور مسلمان صدیوں سے سندھ میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے چلے آ رہے ہیں۔ہمارے آباواجدا بھی مسلمانوں کے تمام تہواروں اور تقریبات میں شرکت کرتے تھے جن میں سچل سرمست کا سالانہ عرس بھی شامل ہے۔‘

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’ہندوں کے کچھ طبقاتی گروہ تدفین کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ دیگر مردے کو گنگا میں بہانے کو افضل سمجھتے ہیں۔ سندھ میں بہت سے قبرستان ایسے ہیں جہاں مسلمان اور ہندو ساتھ ساتھ دفن ہیں۔‘

اس موضوع پر عبد الحسیب کا کہنا ہے’عام لوگ صوفیائےکرام کی باتوں اور تعلیمات سے بہت متاثر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ بہت سے لو گ پوری پوری زندگی ان کی تعلیمات آگے بڑھانے کے لئے وقف کردیتے ہیں، جبکہ ان کی اکثریت مرنے کے بعد بھی صوفی قبرستان میں دفن ہونے کی خواہش رکھتی ہے۔‘

XS
SM
MD
LG