کراچی —
صوبہ ِسندھ کے مشہور صوفی بزرگ اور شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی کو گزرے 270 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن وہ اپنے کلام اور تعلیمات کے حوالے سے آج بھی دنیا بھر میں ہر جگہ پہچانے جاتے ہیں۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کو سندھ کی سرزمین کا سب سے بڑا حوالہ قرار دیا جاتا ہے۔
عبد اللطیف بھٹائی سندھ کے چھوٹے سے علاقے بھٹ شاہ میں خاک بسر ہیں۔ بدھ کو جوش و جذبے کے ساتھ ان کے عرس کا آغاز کیا گیا۔ عُرس کے موقع پر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی تین روزہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ اس روز صوبے بھر میں عام تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھا کر عرس کا افتتاح کیا۔
اس موقع پر مزار کے احاطے میں موجود عقیدت مندوں نے جنہیں ’ملنگ‘ بھی کہا جاتا ہے، تنبورے پر شاہ جو کلام پیش کیا۔ تنبورہ سندھ کا روایتی ساز ہے جبکہ شاہ جو کلام سے مراد شاہ عبداللطیف کا صوفیانہ کلام ہے۔ سندھ میں شاہ جو کلام کو انتہائی عقیدت حاصل ہے ۔ ’شاہ‘ نے اپنے اس کلام کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کو غرور، حسد اور نفس پرستی جیسے جذبات کو ختم کرکے انسانی رشتوں کی قدر کا درس دیا ہے۔
عرس میں شرکت کے لئے ملک کے مختلف چھوٹے بڑے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ بھٹ شاہ پہنچے ہیں۔ تین دنوں کے دوران زائرین ادبی محافل میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ زرعی نمائش بھی دیکھیں گے جبکہ وہ سندھ کی ایک اور منفرد پہچان ’ملاکھڑا‘ یعنی کشتی کے مقابلوں سے بھی لطف اندوز ہوں گے۔ ساتھ ہی سگھڑوں کی کچہری، لطیفی راگ رنگ کی محفل اور آخر میں تقریب تقسیم انعامات بھی بڑے جذبے کے ساتھ منائی جاتی ہے۔
بھٹ شاہ میں بیک وقت ہزاروں افراد کی موجودگی کے سبب سیکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات کئے گئے ہیں۔ مزار اور اس سے ملحقہ تمام داخلی راستوں پر خصوصی طور پر روشنی کا انتظام کیا گیا ہے جبکہ علاقہ رنگ برنگے قمقموں اور رنگ رنگ کے جھنڈوں سے سجایا گیا ہے۔ مزار کے داخلی راستوں پر 4 واک تھرو گیٹ اور 22 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔ یہاں مانیٹرنگ روم بھی بنا دیا گیا جبکہ 3 ہزار پولیس اہلکار بھی تعینات کئے گئے ہیں۔
عبد اللطیف بھٹائی سندھ کے چھوٹے سے علاقے بھٹ شاہ میں خاک بسر ہیں۔ بدھ کو جوش و جذبے کے ساتھ ان کے عرس کا آغاز کیا گیا۔ عُرس کے موقع پر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی تین روزہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ اس روز صوبے بھر میں عام تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھا کر عرس کا افتتاح کیا۔
اس موقع پر مزار کے احاطے میں موجود عقیدت مندوں نے جنہیں ’ملنگ‘ بھی کہا جاتا ہے، تنبورے پر شاہ جو کلام پیش کیا۔ تنبورہ سندھ کا روایتی ساز ہے جبکہ شاہ جو کلام سے مراد شاہ عبداللطیف کا صوفیانہ کلام ہے۔ سندھ میں شاہ جو کلام کو انتہائی عقیدت حاصل ہے ۔ ’شاہ‘ نے اپنے اس کلام کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کو غرور، حسد اور نفس پرستی جیسے جذبات کو ختم کرکے انسانی رشتوں کی قدر کا درس دیا ہے۔
عرس میں شرکت کے لئے ملک کے مختلف چھوٹے بڑے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ بھٹ شاہ پہنچے ہیں۔ تین دنوں کے دوران زائرین ادبی محافل میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ زرعی نمائش بھی دیکھیں گے جبکہ وہ سندھ کی ایک اور منفرد پہچان ’ملاکھڑا‘ یعنی کشتی کے مقابلوں سے بھی لطف اندوز ہوں گے۔ ساتھ ہی سگھڑوں کی کچہری، لطیفی راگ رنگ کی محفل اور آخر میں تقریب تقسیم انعامات بھی بڑے جذبے کے ساتھ منائی جاتی ہے۔
بھٹ شاہ میں بیک وقت ہزاروں افراد کی موجودگی کے سبب سیکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات کئے گئے ہیں۔ مزار اور اس سے ملحقہ تمام داخلی راستوں پر خصوصی طور پر روشنی کا انتظام کیا گیا ہے جبکہ علاقہ رنگ برنگے قمقموں اور رنگ رنگ کے جھنڈوں سے سجایا گیا ہے۔ مزار کے داخلی راستوں پر 4 واک تھرو گیٹ اور 22 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔ یہاں مانیٹرنگ روم بھی بنا دیا گیا جبکہ 3 ہزار پولیس اہلکار بھی تعینات کئے گئے ہیں۔