رسائی کے لنکس

ہائی بلڈ پریشر ‘خاموش قاتل’


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

عالمی ادارۂ صحت نے لوگوں کو ہائی بلڈ پریشر کے خطرات سے آگاہ کرنے کی ایک مہم چلائی ہوئی ہے اور اس سلسلے میں ایک موثر وڈیو تیار کی ہے۔ اس وڈیو میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ہر تین بالغ افراد میں سے ایک کو ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ ہے۔

سات اپریل کو صحت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اور اس سال کا موضوع ہے ، ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشارِ خون۔

افریقہ اور ایشیا کے بعض علاقوں میں خون کا دباؤ بڑھنے کا مسئلہ بڑا سنگین ہے اور پہلا چیلنج اس مرض کی تشخیص ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینیگال میں 20 سال سے زیادہ عمر کی ہر آٹھ عورتوں میں سے ایک کو موٹاپے کا مرض ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ بیماریاں ہیں جو موٹاپے کے ساتھ آتی ہیں جیسے ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشارِ خون۔

میمتی ندائی کہتی ہیں کہ وہ اپنے گھرانے کے لوگوں کو آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ زیادہ چاق و چوبند اور متحرک زندگی گذاریں۔

‘‘ان سب کو ذیا بیطس اور خون کا دباو زیادہ ہونے کی بیماریاں ہیں۔ میں ان سے کہتی رہتی ہوں کہ وہ پیدل چلیں اور زیادہ ورزش کریں۔’’

عالمی ادارۂ صحت نے لوگوں کو ہائی بلڈ پریشر کے خطرات سے آگاہ کرنے کی ایک مہم چلائی ہوئی ہے اور اس سلسلے میں ایک موثر وڈیو تیار کی ہے۔ اس وڈیو میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ہر تین بالغ افراد میں سے ایک کو ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ ہے۔ افریقہ کے بعض کم آمدنی والے ملکوں میں خون کے زیادہ دباو والے لوگوں کی تعداد 40 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

پروفیسر مجید عِزّتی لندن کے امپیریل کالج میں ‘‘گلوبل انوارنمنٹ ہیلتھ’’ کے شعبے کے سربراہ ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘‘خون کا دباو زیادہ ہونے میں شاید سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ کی غذ ا میں نمک کتنا ہے۔ نمک کے استعمال کا تعلق آپ کے رہن سہن کے انداز اور اس علاقے سے ہے جہاں آپ رہتے ہیں ۔ بہت سے خوشحال ملکوں نے اپنے تیار شدہ اور پیک کیے ہوئے کھانوں میں سے نمک نکال دینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔’’

ڈاکٹر عزتی کہتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر سے لوگوں پر اور معاشروں پر زبردست بوجھ پڑتا ہے۔

‘‘ساری دنیا میں یہ ہلاکتوں اور بیماریوں کی ایک بہت بڑی وجہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کا تعلق دل کی بیماریوں سے اور فالج کے حملوں سے ہے جو پورے ایشیا میں عام ہیں۔’’

ڈاکٹر کہتے ہیں کہ دور دراز علاقوں میں ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ علاج معالجے کی سہولتوں تک رسائی کیسے حاصل کی جائے۔ لہٰذا ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے بلڈ پریشر ناپنے کا ایک آلہ تیار کیا ہے جو شمسی توانائی سے چلتا ہے۔

انہیں امید ہے کہ اس طرح مرض کی تشخیص اور علاج کرنا آسان ہو جائے گا۔ لندن کے کنگز کالج کے پروفیسر اینڈریو شینن اس آلے کو ڈزائن کرنے والوں میں شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘‘ہم تنزانیہ، زمبیا اور زمبابوے کے دیہی علاقوں میں گئے اور ہم نے یہ آلہ ان کلینکس کو دیا جن کے پاس بلڈ پریشر ناپنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا لوگ اس آلے کو استعمال کریں گے اور کیا اس کے نتیجے میں لوگوں کے لیے بڑے ہسپتالوں میں جدید علاج معالجے کی سہولتیں حاصل کرنا ممکن ہو جائے گا ۔ اور حققیت میں ایسا ہی ہوا۔’’

یہ مانیٹرز شروع میں حاملہ عورتوں میں ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ لیکن شینن کہتے ہیں کہ انہیں آبادی کے تمام لوگوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

‘‘اگرچہ یہ بہت سستا آلہ ہے اور ہم اسے 26 ڈالر سے کم قیمت پر فروخت کریں گے، لیکن اس کی پیمائش اتنی ہی صحیح ہوتی ہے جتنی پندرہ ہزار ڈالر قیمت کی مشین کی جسے میں اپنے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں استعمال کرتا ہوں۔’’

ایک اور افریقی ملک جہاں ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے، ٹو گو ہے۔ ڈاکٹر ایڈم گوئی ایکیو ٹوگو کے لومن یونیورسٹی ہاسپٹل میں امراضِ قلب کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘ہائی بلڈ پریشر کو خاموش قاتل کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے جس کے بارے میں ہم میں ہم بہت زیادہ بات نہیں کرتے، لیکن یہ ایسی بیماری ہے جو لوگوں کی جان لے لیتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس بیماری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ، ایڈز سے مرنے والوں سے زیادہ ہے ، لیکن ہم اس کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتے۔’’

عالمی ادارۂ صحت کو امید ہے کہ اس کی مہم کے نتیجے میں زیادہ لوگ اس قاتل بیماری کے بارے میں بات کرنے لگیں گے۔
XS
SM
MD
LG