پاکستان میں سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے خلاف دائر درخواستوں پر نواز شریف اور جہانگیر ترین کو نوٹسز جاری کردیے جس کی سماعت 30 جنوری کو ہوگی۔
ماضی میں سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں کی طرف سے ارکان اسمبلی کو تاحیات نااہل قرار دیے جانے کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ نے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا ہے جو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 30 جنوری کو درخواستوں کی سماعت کرے گا۔
لارجر بینچ كے ممبران میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔
اتوار کے روز سپریم کورٹ نے اس ضمن میں نااہل قرار دیے گئے مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف اور تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی ان کی درخواستوں پر نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں حکم دیا ہے کہ فریقین خود یا وکیل کے ذریعے مقدمے کی کارروائی میں شامل ہوں۔
سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی کے خلاف 14 ارکان اسمبلی نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کررکھی ہیں جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی کم سے کم مدت کا تعین کیا جائے۔ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنا پر نااہل کیا گیا اور نااہلی کے بعد ایک عرصہ سے وہ ملکی سیاست سے باہر ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ ایک بار نااہل ہونے والے شخص کی نااہلی کی مدت کا تعین کیا جائے۔
دریں اثنا عدالت عظمیٰ نے آبزرویشن دی ہے کہ بد دیانت قرار دیے گئے شخص کی نااہلی کی مدت تاحیات ہے۔ تاہم یہ مدت پانچ سال یا ایک سال ہو، اس کا تعین جلد کرلیں گے۔
یاد رہے کہ آئین كے مذكورہ آرٹیكل كے تحت سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین كو بھی نااہل كیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین نے كہا ہے كہ اگر عدالت نے درخواستوں پر نااہلی كی مدت کا تعین كردیا تو امكان ہے كہ ان دونوں رہنماؤں كو بھی ریلیف مل سكتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل ہونے والے شخص کی نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور ایک بار نااہل ہونے والا شخص تاحیات نااہل تصور ہوتا ہے۔ لیکن اگر عدالت نے اس مدت کا تعین کردیا تو اس سے وہ تمام سیاست دان فائدہ اٹھا سکیں گے جو گذشتہ کئی سالوں سے اس آرٹیکل کی مدت کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے سیاست سے فارغ ہوبیٹھے ہیں۔
اس آرٹیکل کا اطلاق پارٹی سربراہ پر بھی ہوتا ہے لیکن انتخابی اصلاحات ایکٹ پاس ہونے کے بعد پارٹی سربراہ پر اس نااہلی کا اثر نہیں ہوتا اور کوئی بھی عدالت سے نااہل شخص پارٹی سربراہ یا عہدیدار بن سکتا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اس آرٹیکل کا فائدہ اٹھایا۔ تاہم جہانگیر خان ترین نے پارٹی کی سیکرٹری جنرل شپ سے استعفیٰ دیا اور اس آرٹیکل کا اب تک فائدہ نہیں اٹھایا۔